اسلام آباد میں اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کےلئے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے کشمیر کے مظلوموں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر تیسری قوت کو ثالثی کا کردار ادا کرنا ہو گا“۔ بین الاقوامی امن کو تحفظ دینے کے لئے سفارت کاری کا علم ترتیب دیا گیا۔ سفارت کاری وہ کام کرتی ہے جو بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور تباہی کے بعد بھی جنگیں انجام دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ سفارت کار جنگ کو روکتے ہیں۔ تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ممالک خود کو مہذب کہلاتے ہیں۔ ان کے مہذب ہونے کا دعویٰ اس لئے تسلیم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل جنگوں کے بعد اپنے تنازعات کو پرامن طریقوں سے طے کرنے کا نظام تشکیل دیدیا۔ امریکہ اور یورپ کی مجموعی آبادی ایک ارب سے کم ہے لیکن دنیا وہ خطہ ہے جہاں لگ بھگ پونے دو ارب انسان آباد ہیں اس کو لاحق خطرات کا احساس کسی مہذب کہلائے جانے والی ریاست کی طرف سے دیکھنے کو نہیں مل رہا۔تنازع کشمیر ایک تاریخ ہے۔ پہلے دن سے عالمی برادری اس معاملے سے آگاہ ہے۔ برطانیہ تنازع کشمیر کی چنگاری سلگتی چھوڑ کر جب برصغیر سے رخصت ہوا تو وہ ایک عالمی طاقت تھا۔ برطانیہ چاہتا تو کشمیر کا تنازع حل ہو سکتا تھا مگر برطانوی وائسرائے اور ان کا عملہ کانگرس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے نوزائیدہ ریاست پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر گئے۔ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے مشرقی پاکستان کے سقوط کی تحریک میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ جان سٹون نے پاکستان کے خلاف لابنگ کی۔ ان خدمات کے اعتراف میں بنگلہ دیش بننے پر جان سٹون کو اس کی شہریت دی گئی۔ پاکستان جب تنازع کشمیر کے پرامن حل کی بات کرتا ہے تو یہ عین اصولی بات ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر انسانی حقوق کا چارٹر اور امن معاہدوں کی عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ اخلاقی اور قانونی سطح پر پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہے لیکن تجارتی اور سیاسی مفادات میں بندھی عالمی طاقتیں سچائی سے واقف ہونے کے باوجود غیر جانبدار یا خاموش رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ عالمی میڈیا کے کام کرنے کا انداز نرالا ہے۔ رائے عامہ سے وابستہ حلقوں کو اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ یہ کردار صرف کاروباری فکر کا یرغمال کیوں بن گیا ہے۔ انسانی اقدار اور فروغ امن کے لئے بڑے میڈیا ادارے ان تنازعات کو لائق توجہ سمجھتے ہیں جہاں امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات ہوں۔ عالمی سطح پر اپنے موثرپن اور قابل بھروسہ خبروں کی ساکھ کے حامل کتنے ادارے ہیں جنہوں نے افغانستان کے حالات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے عام افغانی کی زندگی میں شامل ہوئے دکھوں کو اپنا موضوع بنایا ہو۔ کتنی کہانیاں ایسی ہیں جو شام کی خانہ جنگی کے ملبے تلے دب کر رہ گئیں۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی بتا کر کسی نے عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا؟۔ بھارت نے 68روزسے کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ دس سے پندرہ سال کے بچوں کو بھارتی فوج گرفتار کررہی ہے۔ کشمیریوں کی دکانیں جلائی جا رہی ہیں۔ باغات کو کاٹا جا رہا ہے۔ کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ مریضوں کے لئے علاج کی حالت چند روز قبل جاری ہونے والی رپورٹ سے عیاں ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی کون سی خلاف ورزی ہے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں روا نہیں رکھی لیکن عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ردعمل مایوس کن رہا۔ ذرائع ابلاغ مظلوم اقوام کا ساتھ دینے اور ان کے دکھوں کو اجاگر کرنے کی بجائے عالمی طاقتوں کے پیدا کردہ تنازعات کو مخصوص انداز سے شائع اور نشرکرتے ہیں۔ بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی ہے۔ یہ درست کہ حقیقت پسندانہ پالیسی باہمی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور دنیا کے مفادات بھارت سے جڑے ہیں لیکن ریاست کی اکائی افراد ہوتے ہیں۔ آبادی کی مجموعی سوچ ریاست کی پالیسی بنتی ہے اگر یورپ اور امریکہ کی ریاستیں انسانی اقدار کو فراموش کر بیٹھی ہیں تو وہاں کے لوگوں کو مہذب کہلانے کا حق ہے نہ ان ریاستوں کو اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کا غلام بنائے رکھنے کی اجازت۔دو روز قبل لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے تین افراد زخمی ہوئے۔ جمعہ کے روز ایک بار پھر ایل او سی پر بھارت نے فائرنگ کی جس سے ایک لڑکا شہید اور خواتین وبچوں سمیت 16افراد زخمی ہوئے۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ شاردہ‘ نیزہ‘ پیر‘ سوال اور بانسر سیکٹر میں جاری رہا۔ دیکھا جا رہا ہے کہ رافیل طیارے ملنے کے بعد بھارت ایک بار پھر سرحدوں پر کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ بھارتی اقدامات مقبوضہ و آزاد کشمیر میں اشتعال پیدا کر رہے ہیں۔ آزادکشمیر میں لوگ لائن آف کنٹرول پار کر کے بھارتی فوج سے دو بدو لڑائی پر آمادہ ہیں۔ ایل او سی پر کشمیری دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان سے اپیل کی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پار نہ کریں۔ اس موقع پر عالمی برادری کی زبانی مذمت کافی نہیں۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ جناب انتونیوگوترس کو سفارت کاری کے ناکام ہونے کوروکنا چاہئے۔ دنیا کو اس بات کا احساس دلائے جانے کی ضرورت ہے کہ تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنے کی راہ محدود کر دی گئی تو کمزور ممالک مہلک ٹیکنالوجی کی طاقت حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں گے۔
٭٭٭