”امریکہ میں
تارکین کا مستقبل ”
امریکہ جس کو دنیا بھر میں خوابوں کو حقیقت کا ملک دینے والے ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے آج کل خوابوں کی تباہی کا ملک بن گیا ہے جس کی بڑی وجہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے غیرقانونی اور قانونی تارکین کے لیے سخت ترین اقدامات ہیں ، غیرقانونی تارکین کو جہاز بھر بھر کے آبائی ممالک کو ملک بدر کیا جارہا ہے تو دوسری طرف قانونی تارکین کو بھی ائیر پورٹس پر گرفتار کر کے آبائی ممالک کو واپس بھیجا جا رہا ہے جبکہ اس تناظر میں عدالت احکامات کو بھی ہوا میں اُڑایا جا رہا ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی تاریخ کی ملک بدری کی سب سے بڑی مہم چلانے اور خاص طور پر لاطینی امریکی ممالک سے آنے والے تارکین وطن پر قابو پانے کا عزم ظاہر کیا۔امریکی صدر کے حکم سے کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے تقریباً پانچ لاکھ 32 ہزار شہری متاثر ہوں گے۔ یہ اکتوبر 2022 میں ٹرمپ کے پیش رو جو بائیڈن کی جانب سے شروع کی گئی ایک سکیم کے تحت امریکہ آئے۔ اس سکیم میں اگلے سال جنوری میں توسیع کی گئی۔صدارتی حکم کا مطلب یہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت آنے والے تارکین وطن کو ’24 اپریل تک امریکہ چھوڑنا ہوگا بشرطیکہ وہ کوئی دوسری امیگریشن حیثیت حاصل نہ کر لی ہو جو انہیں ملک میں رکنے کی اجازت دے۔’ویلکم یو ایس’ نامی پروگرام جو امریکہ میں پناہ کے متلاشی افراد کی مدد کرتا ہے، نے متاثرہ افراد پر زور دیا ہے کہ وہ ‘فوری طور پر’ کسی امیگریشن وکیل سے مشورہ کریں۔کیوبن، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے شہریوں کے لیے اعلان کردہ سی ایچ این وی پروگرام جنوری 2023 میں شروع کیا گیا جس کے تحت ان ممالک سے ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 30 ہزار افراد کو دو سال کے لیے امریکہ آنے کی اجازت دی گئی۔ ان چاروں ممالک کا انسانی حقوق کا ریکارڈ انتہائی خراب سمجھا جاتا ہے۔بائیڈن نے اس منصوبے کو امریکہ اور میکسیکو کی مصروف سرحد پر دباؤ کم کرنے کا ‘محفوظ اور انسان دوست’ طریقہ قرار دیاتاہم محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے جمعے کو زور دیا کہ یہ سکیم ‘عارضی’ ہے۔ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں جنگ کے زمانے کے ایک غیر معمولی قانون کا سہارا لیتے ہوئے مبینہ طور پر وینزویلا کے ایک گینگ کے 200 سے زائد ارکان کو ایل سلواڈور منتقل کر دیا جس نے تارکین وطن اور یہاں تک کہ امریکی شہریوں کو کم پیسے لے کر قید میں رکھنے کی پیشکش کی۔گزشتہ ایک دہائی میں وینزویلا کے 70 لاکھ سے زائد شہری اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں کیونکہ تیل سے مالا مال اس ملک کی معیشت بائیں بازو کے رہنما نکولس مدورو کے دور میں تباہ ہو گئی۔ ونیزویلا کے رہنما واشنگٹن کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں اور انہیں سنگین پابندیوں کا سامنا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تارکین کی اتنی بڑی تعداد کو امریکہ بدر کر کے کیا مقاصد حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے ، قانونی تارکین امریکہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جوکہ مختلف کاروباری سکیموں، ملازمتوں اور پبلک سروسز میں خدمات انجام دے کر اس ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ایسے افراد کو نفرت انگیز پالیسی کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالا تر ہے ، اگر امریکہ اپنی سپر پاور اور سپر میسی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس کو پہلے سے جڑی روایات، قانون، پالیسی کو ہی ساتھ لے کر چلنا ہوگا ، ٹرمپ امریکہ کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہا ہے جس کا خمیازہ عوام کو ہی چکانا پڑے گا۔
٭٭٭