کیا یہی انصاف ہے؟

0
134
کامل احمر

کامل احمر

کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں؟ دماغ ماﺅف ہے، امریکہ میں وقفے وقفے سے جو کسی نا اہل پولیس آفیسر کی وجہ سے ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں، تاریخ میں ایسے حادثات بہت ہیں کہ جس کا فرداً فرداً ذکر کریں تو یہ صفحات ناکافی ہونگے۔ ہم حالیہ پولیس آفیسر ڈیرک شاون کا منیا پولیس میں گھٹنے سے گردن دبا کر مار ڈالنے کا واقعہ نیا نہیں ہے جبکہ مرنے والا کالا افریقن امریکن تھا اور نہتا تھا ۔اس کا نام جارج فلائڈ تھا۔ تقریباً 9 منٹ تک پولیس آفیسر نے اپنے جسم کا پورا وزن گھٹنوں کے ذریعے فلائڈ کی گردن پر ڈالا جبکہ وہ کراہتے ہوئے کہتا رہا، میں سانس نہیں لے سکتا۔ کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اس نہتے کو کیوں مارا گیا۔ آفیسر کے دماغ کا خلل یا پھر کوئی ذاتی دشمنی یا عناد کی وجہ ہی ہو سکتی ہے۔ کیا امریکہ کی پچاس ریاستوں کے پولیس والے پروفیشنل نہیں یا ان کی ٹریننگ غلط ہے ،یہ کہنا غلط ہے ،48 سال سے رہنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں سوائے اس کیس کے باقی بھی اسی نوعیت کے تھے۔ مثال دیتے چلیں، پولیس کی جارحیت نوجوان بالخصوص کالوں کی اموات کی اصل وجہ ہے، ہر ایک ہزار میںسے ایک جوان پولیس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ 1999ءمیں برانکس نیویارک میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے گنی کے امیگرنٹ” اماردو دیالو “کو چار خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا اور ایک پولیس والا ہی سیکنڈ ڈگری قتل کا ملزم ٹھہرا تھا ،یہ سزا ناکافی تھی ، فیصلہ غلط تھا اور پولیس نے اپنی طاقت کا جارحانہ مظاہرہ کرتے ہوئے نیویارک میں ہیٹی کے امیگرنٹ کو گرفتاری کے بعد زدو کوب کرتے ہوئے تھانہ میں اس بُری طرح زخمی کر دیا تھا کہ اس کے تین آپریشن کر کے جان بچائی گئی۔ اس کے منہ میں جھاڑو کا ڈنڈہ گھسیڑا گیا تھا اور جسم کو زود کوب کے دوران لہولہان کر دیا تھا۔ یہ ایک جنونیت تھی ،بد قسمتی یہ بھی کالا تھا ،جسے کلب میں دنگا فساد کے دوران گرفتار کیا گیا تھا ،ہر چند کہ بیان کے مطابق ایبز لووئما نے پولیس والوں کو بہت تنگ کیا تھا لیکن اس کےساتھ یہ زیادتی کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا جس نے ثابت کیا کہ نیویارک کسی تھرڈ ورلڈ ملک کا شہر ہے۔ پولیس آفیسروں کو ہلکی سزا دے کر چھوڑ دیا ایک آفیسر کو جس کا رول بہت کم تھا 15 سال کی سزا ہوئی جو بعد میں اپیل پر جھوٹی گواہی دینے والے کے اقرار پر 5 سال میں تبدیل ہوئی۔ صرف جسٹن واپسی نامی پولیس آفیسر کو مرکزی کردار ہونے کی وجہ سے 30 سال سزا اور 280 ہزار جرمانہ ہو ا۔یہ 1999ءکی بات ہے اس سے بھی بھیانک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ 2014ءمیں ایک 16 سالا لڑکے لقوان میکڈانلڈ کو ایک اہلکار نے 14 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، یہ شکاگو کا واقعہ ہے اور آفیسر کا نام جیسن وین ڈائک ہے ہر ریاست کا اپنا قانون ہے اور وہ ایک ہی طرح کا ہے یعنی مجرم کےخلاف جارحیت کا استعمال نہیں کرنا۔ ہر چند کہ بعض ملزمان پولیس سے ہاتھا پائی بھی کرتے ہیں پھر بھی پولیس کی ٹریننگ میں مجرم کےساتھ نرمی سکھائی جاتی ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ پولیس کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے اور جب ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو حکومت کے کرتا دھرتا یہ بیان دے کر (Justice Will Be Served) انصاف ہوگا، بیان دے کر کیس بند کر دیتے ہیں لیکن اس کی روک تھام کیلئے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے۔
پاکستان میں رہنے والے ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر بیان داغا کہ امریکہ میں یہ عام ہے کہ پولیس کمزوروں، کم اکثریت اور امیگرنٹ کو اپنی نفرت کا نشانہ بناتی ہے ہم یہ بتاتے چلیں کہ 32 کروڑ کی آبادی اور 50 ریاستوں سے بنے، اس ملک میں اس قسم کی کوئی بات عامن ہیں ،ورنہ تیسری دنیا کے لوگ یہاں آکر نہ بسیں اور وہ اپنے ملک خاص کر پاکستان کی لاقانونیت لے کر نہ آئیں تو قانون ہر کسی کیلئے ایک ہے۔ پولیس اگر آپ کو کار چلاتے روکتی ہے یا چُراتے ہوئے پکڑتی ہے تو پولیس سے دھینگا مشتی نہ کریں، قانون فیصلہ کرےگا۔ یہاں کی کرمنل کورٹ میں مشاہدے کی غرض سے جا کر دیکھا ہے۔ 90 فیصد ججز کیس کو سنجیدگی سے لے کر کوشش کرتے ہیں کہ ملزم کو انصاف دیتے وقت کوئی زیادتی نہ ہو البتہ ان میں چند کالی بھیڑیں ہیں جس کی تفصیل ہے۔
جارج فلائڈ کی موت ہر چند کہ امریکہ کیلئے باعث عبرت ہے کہ وہ ایسے پولیس افسروں کےخلاف تھرڈ ڈگری مرڈر مطلب غیر قانونی قتل کا الزام نہ رکہیں بلکہ سیکنڈ ڈگری مرڈر کے تحت پوری عمر قید کا حقدار ٹھہرائیں اور یہی احتجاج کرنےوالوں کی چیخ و پکار ہے جس نے نہ صرف امریکہ کی 35 ریاستوں بلکہ کئی ملکوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پھر بھی غیر قانونی توڑ پھوڑ، جلاﺅ گھیراﺅ، عبادت گاہوں میں گُھس کر لُوٹ مار، تجارتی جگہوں کو مالی نقصان کا جواز نہیں بنتا لیکن صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ گورنرز کوچاہئے سختی سے کام لیں اور نیشنل گارڈز کو بلائیں اچھا نہیں کیا۔ یہ کام گورنرز کا تھا ،خاص کر نیویارک کے گورنر کیومو نے میئر نیویارک سے مل کر ابھی تک نیشنل گارڈز نہیں بلوائے ،نتیجہ میں مین ہیٹن اور بروکلین میں کروڑوں کی جائیداد اور بزنس کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پولیس کی گاڑیوں کو ہر جگہ آگ لگائی ہے، یہ کون لوگ ہیں ہمیں یقین ہے ان کو جارج فلائڈ سے کم ہمدردی ہے اور ان میں ANTIFA اینٹی فاشسٹ کے لوگ بھی شامل ہیں جو عوام کو استعمال کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک فیصدی لوگ امریکہ کی اور پوری دنیا کی دولت پر قابض ہیں اور آج سے چند سال پہلے وال اسٹریٹ میں دھرنا دیا گیا تھا ۔اب یہ آرگنائزیشن بڑے ترقی یافتہ ممالک میں جڑوں میں پوڑ گئی ہے اور امریکہ میں غریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہو رہے ہیں، انہیں احتجاج کیلئے پلیٹ فارم چاہئے اور ANTFA یہ مہیا کر رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ANTIFA کو دہشتگرد آرگنائزیشن قرار دے کرBAN کرنے جا رہے ہیں۔ امریکہ کی 14 بڑی کارپوریشنز کو اور فارما سوٹیکل کارپوریشنز کو سوچنا ہوگا کہ وہ مزدوروں کو چھاج دے رہے ہیں اور خود مکھن کھا رہے ہیں، ساتھ ہی پولیس کو اگر وہ اس قسم کا جرم کرتی ہے تو تھرڈ ڈگری چارجز لگا کر چھوڑنا بند کرنا پڑے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here