کامل احمر
کچھ ماہ پہلے جب تحریک انصاف کی حکومت بنی اور ایم کیو ایم کو چار وزارتیں دی گئیں تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ پی ٹی آئی نے نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ہر چند کہ جو وزارت مقبول صدیقی کو دی گئی تھی وہ اس کیلئے مناسب نہ تھے پھر عمران خان کا ایم کیو ایم یعنی کراچی والوں کی تعریف، کرنا بھی اچھا لگا اور اس میں کسی کو شُبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی والوںکو اچھا لیڈر مل جاتا اور کراچی کو مالی تعاون ملتا تو وہ ایک نئی تاریخ لکھ دیتے ،ہمیں یہ کہتے جھجک نہیں کہ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی کراچی والوں سے وفاق کا سلوک سوتیلی ماں سے کم نہ تھا، یا روتے ہوئے بچے کو ایک ٹافی دے کر اس کے آگے سے دال روٹی ہٹا لی جائے، اگر ہمیں ایم کیو ایم میں کسی شخص پر اعتماد تھا اور ہے تو اس کا نام خالد مقبول صدیقی ہی تھا جسے ہم نے لڑکپن میں دیکھا تھا کہ صرف بارہ سال کی عمر میں انہیں سیاسی شعور تھا وہ اس وقت پانچویں کلاس کا طالبعلم ہوگا اور ہم BSC فائنل میں گورنمنٹ کالج حیدر آباد میں جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑ رہے تھے کہ ایک بچے کو ہم نے اپنا پلے کارد اٹھائے جمعیت العلماءکے بڑے بڑے لڑکوں کے سامنے ان کے نعروں کا جواب دیتے پایا۔ جمعیت ہمارے مقابلے میں گورنمنٹ سے طلباءلیڈر چودھری بشیر احمد کو سپورٹ کر رہی تھی تیسرا امیدوار سندھی تھا نتیجہ آیا تو تیسرا امیدوار جیت گیا تھا اور جمعیت ہمیں ہرانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لڑکا ہمارے دوست شمیم صاحب کا بھانجا ہے جو اب ہیوسٹن میں ہیں بات تھی 1948ءکی ہم اس بات کو بھول گئے لیکن جب ہمیں نیویارک میں خالد مقبول صدیقی سے ملاقات ہوئی تو ہم سب کچھ بھول چکے تھے اور یہ بھی یاد نہ تھا کہ جو شخص کرسی پر ہمارے سامنے بیٹھا ہے وہی لڑکا ہے جس نے آج سے 46 سال پہلے ہمارے لئے کام کیا تھا وہ چاہتا تھا کہ ہم الیکشن جیت جائیں۔ یہ بات چھ سال پرانی ہے کہ سامنے بیٹھے شخص نے اپنا تعارف کرایا اور شکایتاً کہا کہ ہم اسے پہچانتے نہیں۔ آپ کو نیویارک میں کون نہیں جانتا ایم کیو ایم سے تعلق ہے نا آپ کا، لیکن یہ خالد مقبول صدیقی کی بڑائی تھی کہ اس نے ہمیں اپنا تعارف پرانے سلسلے سے کرایا اور جب سے آج تک ہم اس کی قدر کرنے لگے جب وہ کراچی واپس نہیں گئے تھے میں نے بارہا سوچا ہوگا کہ اگر یہ شخص طب کے پیشے میں ہی ہوتا تو دوسرا ڈاکٹر ادیب ہوتا اس کا شائستہ نرم لہجہ ہماری پرانی یادوں سے وابستہ تھا جب لیڈر اسی لہجہ میں بات کرتے تھے اور اپنے سے زیادہ وہ عوام کیلئے سوچتے تھے۔ لیکن آج کا دور وہ نہیں اور آج کا لیڈر ایک نمبر کا دغا باز اور دوغلہ ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ الطاف حسین وہ نہیں تھا جو کراچی کی اکثریت سمجھتی تھی ،یہ کراچی کی مجبوری تھی اور ان سے جُڑے لوگوں کی جن میں مقبول صدیقی بھی شامل ہے کہ ایوب خان کے زمانے سے اب تک کئی حکومتیں بدلیں لیکن ہر حکومت اور ہر پارٹی نے کراچی کو دیوار سے لگایا ۔ایم کیو ایم نے ہر حکومت (وفاق اور صوبائی) کا ساتھ دیا لیکن کراچی والوں کو وعدوں پر ٹرخایا گیا اور جب عمران خان نے PTI بنائی تو ہماری امیدیں بڑھیں کہ اگر پی ٹی آئی کامیاب ہو گئی تو ملک کی صورتحال بدل جائےگی ہم نے یہ بھی چاہا کہ ایم کیو ایم عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرے اور PPP سے ناطہ توڑے اور ایسا ہی ہوا۔
جب خالد مقبول صدیقی امریکہ سے کراچی ہجرت کر کے جا رہا تھا تو ہماری دعائیں اس کےساتھ تھیں اور اس کی وجہ تھی کہ ہمیں اپنی سوچ اور پسند پر ناز تھا کہ اگر خالد مقبول صدیقی عمران کی حکومت میں آجائے تو کراچی کا نقشہ بدل سکتا ہے اور جب پی ٹی آئی جیت گئی اور ایم کیو ایم (کراچی) سے چار وزراءوفاق میں شامل ہو گئے تو یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئے گی ہم تحریک انصاف سے زیادہ عمران خان پر یقین رکھتے تھے کہ وہ ملک سدھارنے آیا ہے۔ لیکن اس کے سامنے دوسرے مضبوط ہٹ دھرم ادارے دیوار بنے کھڑے ہیں جو کلی طور پر عمران کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پھر عمران کے طریقہ کار پر مایوسی ہوئی کہ تاحال وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ 18 ماہ ہو رہے ہیں اور ان اٹھارہ ماہ میں عمران نے کراچی اور وہاں کے رہنے والوں کیلئے کچھ بھی نہیں کیا وہ کراچی آتے رہے اور جاتے رہے اور کراچی میں عوام کے سب سے بڑے مخالف (دشمن) پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ کو لگام نہ دے سکے ہمیں یہ کہنے میں کوئی جُھجک نہیں کہ زرداری، مراد علی شاہ، سراج دُرانی، فریال تالپور یوں کہیں تو مناسب ہوگاکہ پورے کا پورا ٹبر چور اور ڈاکوﺅں کا ٹبر ہے اور عمران خان دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی باجوہ صاحب اور غفور صاحب بھی، کراچی کو ہر کوئی لُوٹ رہا ہے ہر کوئی زمین پر قابض ہونا چاہتا ہے کراچی واحد بندر گاہ شہر ہے جس کی اہمیت دنیا میں جتنے بھی بندر گاہ والے شہر ہیں اسی کی طرح ہونے چاہیے حال ہی میں ہم کانسا بلانکا، تبخیر، قاہرہ، دیکھ کر آئے ہیں جو 90 فیصدی مسلمانوں کی آبادی کے ملک میں خاص کر مراکو وہاں ہم جتنے دن رہے چلتے پھرتے ہمیں کراچی کی صورتحال دیکھ کر رونا آتا رہا اور اس جرم میں جو بھی شامل ہیں یا سو رہے ہیں ان کو ڈوب مرنا چاہئے کل کے خالد مقبول صدیقی کے بیان میں جو ہم نے سنا وہ کوئی انہونی بات نہ تھی لیکن کراچی والوں کو جواب خالد مقبول صدیقی نے دینا ہے ہم اُن کے اس مطالبے کو بھی کہ دو سو کراچی والے افراد ظاہر کیا جائے، کراچی کا ریونیو کراچی کو ملنا چاہئے کہ پس منظر میں صرف یہی کہیں گے کہ اگر عمران خان کراچی کے عوام کی فوری ضرورت کا پتہ نہ چلائیں تو کوئی تعجب نہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بزدار سے کیوں پیار ہے کیا وہ بقول میڈیا یا ن لیگ کے ہر کام اپنی بیوی کے مشورے سے کرتے ہیں؟ اگر عمران کراچی میں پہلے کی طرح صرف بسوں کا نظام ہی کر جاتے اور گندگی صاف کر دیتے تو شاید خالد مقبول صدیقی کو کہنے کیلئے کچھ ہو جاتا پھر لکھتے چلیں اگر سیالکوٹ کے قریب کرتار پور گردوارہ سکھوں کیلئے چھ ماہ میں جگمگاتا شہر بن سکتا ہے تو کراچی کے زندہ عوام کیلئے کچھ نہیں ہو رہا، ہم خالد مقبول صدیقی کے استعفے کو ایک مثبت قدم جانیں گے۔
٭٭٭