مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
کرونا کے لاک ڈاﺅن نے کئی گھروں کے چولہے بجھا دیئے ہیں،خاص طور پر ہمارے امریکہ میں لوگ احتجاج کے بہانے سٹور لوٹ رہے ہیں جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے وہ اٹھا رہا ہے۔گراسری سٹور میں گھس کر کھانے پینے کی اشیاءتھیلوں میں بھر کر کیشیئر کو آنکھیں دکھا کر نکل جاتے ہے۔مزاحمت پر گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔لہٰذا مالکان نے کہہ رکھا ہے ایسی صورت حال میں مزاحمت نہیں کرنی۔سو میرے بھائیو آج کل ہماری یہی حالت ہے یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔دوسرا رخ بھی ہے جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے جس طرح ان ہنگاموں کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے جس سے اچھی طرح آپ واقف ہیں۔کچھ سال پہلے امریکہ کی ایک ریاست میں ایک بزرگ نے بیکری سے بریڈ چرالی جس کی قیمت ایک ڈالر تھی۔بیکری کے مالک نے چور کو پکڑ کر پولیس کو کال کردی۔پولیس نے باباجی کو ٹکٹ جاری کردی ایک دن کی ڈیٹ عدالت میں جانے کی لکھ دی۔مطلوبہ تاریخ پر مالک بیکری بھی لوگ بھی گواہان کی صورت میں جمع تھے۔کچھ تماشبین بھی چونکہ مقدمہ ایک ڈبل روٹی کا تھا۔دیکھو جج کیا فیصلہ کرتا ہے ۔عدالت نے بیکری کے مالک، پولیس کی گواہی لے کر پوچھا، اچھا باباجی آپ نے بریڈ کیوں چوری کی۔باباجی نے ایک ہی بات کہی جناب بھوکا تھا پیسے پاس نہیں تھے۔مجبوراً میں نے بریڈ چوری کی ۔جج نے غور سے دیکھا اس کی سچائی چہرے سے عیاں تھی۔جج سمجھ گیا باباجی چور نہیں ہیں۔بھوک نے مجبور کیا تو بریڈ اٹھالی۔جج نے فیصلہ سنایا باباجی ایک ڈالر بیکری والے کو ادا کریں یہ جرمانہ ہے، اس کے بعد جج خاموش ہوگیا۔لوگ سمجھے بس بات ختم ہوگئی مگر جج نے پھر سر اٹھایا اور کہا بیکری مالک پولیس والا اور جتنے لوگ گواہ بن کے آئے ہیں سب باباجی کو ہر مہینے پچاس ڈالر ادا کریںاور یہ جرمانہ باباجی کے پڑوسی بھی تاحکم ثانی پچاس ڈالر ادا کرتے رہیں گے۔اس لئے کہ باباجی نہ تو چور ہیں اور نہ ہی ان کی عمر چوری کی ہے۔بریڈ بھوک کی وجہ سے چرائی لہٰذا باباجی بریڈ چور نہیں ہیںاور آپ سب لوگ انسانیت کے چور ہیں۔کیا بیکری مالک اس کی عمر دیکھتے ہوئے اس کو معاف نہیں کرسکتا تھا۔پولیس والا ایک ڈالر دیکر باباجی کی جان نہیں چھڑا سکتا تھا۔ٹکٹ دے دی اور سب گواہان کی گواہی دینے آئے ہیں لہٰذا آپ سب لوگ انسانیت کے چور ہیں۔
٭٭٭