پیر مکرم الحق،انڈیانا
گزشتہ کالم میں جارج فلائیڈ کے قتل اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا تفصیل سے ذکر کیا تھا،سیاہ فام لوگوں کی جانب پولیس کا متعصبانہ اور پرتشدد رویہ بھی زیر بحث آیاتھا،اس واقعہ کے بعد مظاہرین کا یہ مطالبہ تھا کہ اس واقعہ میں ملوث تمام پولیس والوں کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جائے۔یہ مطالبہ بھی من وعن تسلیم کرکے تمام پولیس اراکین جو اس واقعہ میں ملوث تھے انہیں زیر صدارت لیکر مقدمہ قائم کر دیا گیالیکن جو حیرت انگیز بات ہے کہ مطالبات ماننے کے بعد مظاہروں کا جاری وساری رہنا اب مظاہرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔نئے مطالبات بھی سامنے آگئے ہیں، پولیس کے محکمہ کو مکمل طور پر یا پھر جزوی طور پر بند کر دینے کی بات بھی کی گئی ہے۔لاکھوں، کروڑوں ڈالر جوکہ پولیس کو ہر شہر پر قصبہ جو انکے اخراجات پورا کرنے کیلئے دیئے جاتے ہیں۔اس رقم کو ذہنی امراض وعلاج اور بہتر تعلیمی سہولیات(خصوصاً سیاہ فارم بچوں کیلئے) کی مد میں خرچ کرنے کا مطالبہ سرفہرست ہے جس شہر میں جارج فلائیڈ کا پرتشدد قتل وقوع پذیر ہوا تھا وہاں تو محکمہ پولیس کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ اتنا بڑھ گیا کہ شہر کے میئر نے مطالبہ کی منظوری پر رضا مندی کا اظہار بھی کر دیا ہے لیکن کیا یہ عملی طور پر ممکن ہو پائےگا؟آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے ۔دوسری طرف پولیس یونین اور پولیس والوں کا پرتشدد رویہ بھی اب عوام کی نظروں میں کھینچ لگا ہے۔چاہے وہ محکمانہ کارروائی ہو یا عدالتی مقدمہ پولیس یونین کا اثرورسوخ غالب رہتا ہے ، پولیس اہلکاروں کی مدد کرنا یونین کا فرض اور حق سمجھا جاتا ہے ،اس لئے پولیس اہلکار کو معلوم ہوتا ہے کہ میں صحیح کام کروں یا غلط میری پکڑ نہیں ہوگی اور یہ صورتحال انسانی نفسیات کیلئے صحت مندانہ نہیں جب سزا وجزا کا تصور ختم ہوجائے تو پھر اس طبقہ میں فرعونیت پیدا ہونا فطری عمل ہوجاتا ہے،پولیس یونین ملکر ایک فیڈریشن بنتی ہے، اس فیڈریشن کو چلانے کیلئے پولیس اہلکاروں کی دی گئی یونین فی بنیادی ذریعہ ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ سرمایہ دار اور صنعت کار بھی اپنے ذاتی ذرائع کے ذریعے ایسے ادارے کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔سیاہ فام امریکی معاشی اور معاشرتی ناہمواری کاشکار ہیںاور نفسیاتی مسائل نے بڑی حد تک نشہ آوری اور مختلف جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا کیا ہوا ہے۔اس لئے سفید فام پولیس انہیں حقارت اور کمتری کی نظر سے دیکھتی ہے جس کیوجہ سے سیاہ فام عوام اور سفید فام پولیس کے تعلقات کو پنجابی محاورے میں ہے کہا جائے کہ انکا ”اٹ کتے دا ویر“ہے تو غلط نہیں ہوگا۔مظاہرین کا ایک بڑا گروہ محکمہ پولیس کے اخراجات میں کٹوتی کرکے سماجی بہتری یا فلاح اور ذہنی امراض کی تشخیص اور علاج پر صرف کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔نسبتاً چھوٹا مظاہرین کا گروہ مکمل طور پر پولیس سے چھٹکارا پانے کی بات بھی کر رہا ہے لیکن ایک بات تو بالکل صحیح ہے کہ موجودہ پولیس ٹریننگ نامناسب اور ناکامی ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پولیس فورس چھوٹے جرائم میں تشدد آمیز طریقہ کار استعمال کر رہی ہے۔اس کی حالیہ مثال جارج فلائیڈ کا ظالمانہ قتل ہے جس پر الزام محض بیس ڈالر20کا جعلی نوٹ کو ایک محلے کی دکان پر استعمال کرنے کی کوشش کا تھا۔جس میں شکایت کرنے والے دکاندار کا یہ بھی911کو بتانا شامل تھا کہ شاید جارج فلائیڈ کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ ایک جعلی نوٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اتنے معمولی الزام کے نتیجے میں پولیس اہلکار نے اپنا گھٹنا آٹھ منٹ اور چھیالیس سیکنڈ تک جارج کی گردن پر رکھے رکھا جس کی وجہ سے انکی موت واقعہ ہوگئی۔موت کے وقت ان کی دونوں کلایاں اپنی پشت پر ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئیں تھیں۔ساری دنیا میں قتل ایک ریکارڈ ویڈیو کے ذریعے دیکھا گیا اور امریکہ کی ساکھ عالمی طور پر خراب ہوگئی۔موجودہ مظاہرین کا دوسرا مطالبہ نظام انصاف کا دقیانوسی اور ناکارہ ہونے سے متعلق ہے اور اس نظام کو بہتر کرنے پر کیا جارہا ہے ،ایک اندازے کے مطابق امریکہ پولیس کے اخراجات کی مد میں ایک سو پندرہ بلین(کروڑ)ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ سیاہ فام امریکیوں کی بھاری اکثریت غربت کی لیکر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کے تعلیمی ادارے بدترین حالات میں انکے محلے گندگی کے گودام ہیں۔انکی اکثریت کے پاس مناسب طبی سہولیات میسر نہیں۔سرکاری امداد جو فوڈ اسٹیمپ کی شکل میں فراہم کی جاتی ہے۔اس پر حاصل کئے جانے والی عذائی اجناس انکی صحت وتندرستی پر منفی اثرات پیدا کر رہی ہے۔سونے پر سہاگہ اب کروناوائرس نے بھی سیاہ فام امریکیوں کے گھر دیکھ لئے ہیں۔زندگی عذاب ہوگئی ہے ان بیماروں کی تو پھر انکے لئے اب کیا راستہ رہ گیا ہے۔کہ اب سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔اس ساری صورتحال میں ایک مثبت پہلو جو سامنے آیا ہے کہ اب سفید فام لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو سیاہ فام ہم وطنوں کے دکھوں کو محسوس کرنے کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس رویے کی تبدیلی سے سیاہ فام عوام کی تکالیف کا مداوا ہوجائے۔