کروناوائرس اور ماسک بزنس

0
371
کوثر جاوید
کوثر جاوید

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

کروناوائرس نے جس طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا موجودہ صدی میں اس سے بڑا بحران نہیں دیکھا گیا ہے ، دنیا کے کئی ممالک میں اس جان لیوا وائرس کے بارے میں اپنی اپنی رائے قائم ہو چکی ہے۔کہاں سے آیا؟ ویکسین تیار ہے یا نہیں اور بچاﺅ کے لیے گھروں میں بیٹھیں اور سوشل فاصلے کے ساتھ ماسک پہن کر چلیں، سب چیزیں ہو رہی ہیں۔کرونا سے سب سے زیادہ اموات اور متاثرین امریکہ میں ہیں جیسا آج کے دن بیس لاکھ سے زیادہ کیسز مثبت ہیں ۔115000ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور آٹھ لاکھ سے زائد لوگ صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو نامعلوم ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اچانک ایک دن سو کر اٹھے اور آرڈر جاری کردیا کہ شاپنگ مالز اور کاروباری مراکز کھول دینے چاہئیںجس کے نتیجے میں لوگ عید کے موقع گھروں سے باہر آکر سوشل فاصلے کی دھجیاں بکھیر کر اندھا دھند بازاروں اور سڑکوں پر ہوگئے۔چیف جسٹس پاکستان کی وجہ سے آج پاکستان میں کرونا سے تباہی ہو رہی ہے بجائے جوڈیشری ریفارم اور لوگوں کو جلد انصاف دینے کے لئے کچھ کرتے غیر ضروری اور حکومتی معاملات میں بچ تل رہے ہیں ۔امریکہ میں تین ماہ سے لاک ڈاﺅن اور آہستہ آہستہ مرحلہ بہ مرحلہ معمولات زندگی بحال ہو رہے ۔ صدارتی ایڈوائزری اور سی ڈی سی کی صدارت کے مطابق سوشل فاصلے کے ساتھ اور نہایت احتیاط کرتے ہوئے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں، سینیٹائرز کا استعمال کریں اور چہرے پر ماسک پہنیں تاکہ اس وائرس سے دوسرے لوگوں کو بچایا جا سکے اور پھیلاﺅ کم ہو جوں ہی ماسک کا ذکر ہوا تو پاکستانی کاروباری کمیونٹی کے کان کھڑے ہوگئے ۔امریکہ میں پاکستانیوں کی تاریخ اٹھائیں تو جب ایک کاروبار شروع ہوتا ہے تو ہر پاکستانی اس طرف بھاگنا شروع کردیتا ہے جب تک وہ کاروبار گندہ اور اختتام پذیر نہیں ہوجاتا پاکستانی کاروباری سکون نہیں لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں واشنگٹن کی ٹیکسی کا کاروبار شروع ہوا تو ہر بندہ ٹیکسی ڈرائیور بن گیا جب سیون الیون گروسری سٹور کا کام نہیں شروع ہوا ہر کاروباری پاکستانی سیون الیون کے چکر میں گھومنے لگا ۔گیس سٹیشن کی طرف گئے تو ہر کاروباری گیس سٹیشن کی طرف اندھا دھند کا رئیل اسٹیٹ اور مارگیج شروع ہوا تو ہر گھر میں مارگیج اور رئیل اسٹیٹ کے دفاتر کھل گئے ۔موجودہ کرونا بحران میں چند دن ماسک کی شارٹیج ہوئی تو ہر پاکستانی کاروباری جس کا گروسری سٹور تھا،قانونی تھا ،ریسٹورنٹ کا مالک تھا ،ٹھیلہ لگاتا ہے ،گیس سٹیشن بزنس، فون بزنس، کپڑوں کا بزنس ہر کاروباری نے بھاری مقدار میں ماسک کا سٹاک کرلیا ۔کئی پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر سے چائنہ سے ماسک منگوا کر ذخیرہ کر لیے، کرونا بحران کے دوران امریکہ میں کھانے پینے کی اشیا کی ایک دن بھی قلت نہیں آئی ،ضروریات زندگی پرانے نرخوں پر وافرمقدار میں دستیاب رہیں۔اسی طرح ماسک بھی ہر بڑے امریکی سٹور پر مناسب قیمتوں میں دستیاب رہے جو پاکستانی لاکھوں ڈالر منافع کی لالچ میں لاکھوں ماسک ذخیرہ کر چکے ہیں اب سونے پر مجبور ہیں اور قیمت خرید سے کم ہو کر بیجنے پر تیار ہیں۔دنیا کی قومیں ہر مصیبت اور بیماری کے وبا کے دوران نئی سوچ سے دوسروں کی مدد کے لئے آئندہ کے منصوبے اچھے انداز میں ڈیزائن کرتے ہیںاور ماضی کی غلطیوں اور گناہوں سے سیکھ کر آئندہ زندگی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیںلیکن ہمارے پاکستانی لالچی ذخیرہ اندوزراتوں رات امیر بننے کے چکر میں پہلے سے زیادہ بلیک ورڈ چنے جاتے ہیں ۔اللہ پاک نے ہر شخص کے لئے علیحدہ علیحدہ کاروبار رزق کمانے کے راستے رکھے ہوئے ہیں۔ایک شخص تمام امورانجام نہیں دے سکتا ،کوشش کرنا ہر انسان کا فرض ہے لیکن وہی کوشش اللہ پاک کے مطابق بنائے گئے راستوں اور طریقوں پر چل کر کریں تو ہم ماسک کی ذخیرہ اندوزی سے بچ کر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here