سردار محمد نصراللہ
ایک طرف کورونا کا زور شور میرے شہر لاہور پر حملہ زور ہے،اردگرد آمدات کا ڈھیر لگ رہا ہے،خوف اپنے عروج پر ہے، حکومت اور اپوزیشن سوائے بیان بازیوں میں مگن ہے،عمران خان اور اس کے ساتھی اپنی سی تمام کوششیں عوام کو اس موذی مرض سے بچانے کی مکمل کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن اپوزیشن عمران کی ہر کوشش پتنگڑ بنا رہی ہے۔لاک ڈاﺅن ایک تماشا بنا ہوا ہے ،عمران چاہتا ہے کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات بھی ملے اور سب اپنے کاروبار بھی چلائیں تاکہ کسی کا چولہا بجھنے نہ پائے لیکن اس وبائی کھیل میں مہرشاہد بتاتا ہے کہ ہم عوام اس اراضی کے فروغ میں خود ذمہ دار ہیں۔اس کی وجہ کہ احتیاط ہماری فطرت کا حصہ نہیں ہے۔بے پروائی ہم نے خود اختیار کی ہوئی ہے۔ایک چھوٹا سا ماسک جس سے اتنی بڑی بیماری کو ہم ڈھیر کرسکتے ہیں۔برحال ہے کہ ہم اس کا استعمال کرلیںلیکن نہیں ہم بالکل ایسا نہیں کریں گے کیونکہ لوہے کہ بنے لوگ ہیںاور ہم پر اس بیماری کا اثر ہوگا ہی نہیںلیکن جب ہوتا ہے اور گھر سے لاش اٹھتی ہے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کورونا پھیل رہا ہے ،بس اللہ سے فضل مانگیں اور رحمت کہ اے اللہ رب کرم فرما دے کہ ایک طرف حکومت پریشان ہے تو دوسری جانب اپوزیشن تماشہ ہے ۔میں تو آجکل بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی چپقلش سے لطف اندوز ہو رہا ہوں ،شیکر گپتا اور دوسرے تیسرے بھارت کے ٹی وی اینکروں کا شور شرابے میں رہا ہوںاور مودی کی پٹائی دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں۔میرے چین نے ہندوستان کی جمہوریت کے غبارے سے ایسی ہوا نکالی ہے جسے1962میں چین نے اس وقت بھی ایسی پٹائی لگائی کہ ہندو ہندو چینی بھائی بھائی کی رنگینیوں کی گفتگو سن کر اور اس کا انداز جس طرح وہ بھارتی اور چینی چپقلش پر حقائق بتانے والوں کو منہ چڑھاتا ہے اور اپنی شکست خود وہ فوج کا مورال بلند کرتا ہے۔جبکہ ہمارے یہاں بہت سارے اہل وطن اپنی افواج کو گالیاں دینے نہیں تھکتے ،خیر اس وقت تو اپنے بڑے بھائی چین کے ہاتھوں اپنے دشمن کو پیئے دیکھیں۔
سردار محمد نصراللہ
دوسرا ڈرامہ جو زوروں شوروں کے ساتھ پردہ سکرین پر نمودار ہوا وہ بھی ن مسلم لیگ کے صدر شہبازشریف کا تھا،کچھ دن پہلے ہوتے ہیں جب وہ عاصمہ شیرازی ،حامد میراور مہر بخاری کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑاآبائی کلاس ڈرامہ ایکشن پیش کر رہا تھا۔خاص طور پر جب تینوں اینکروں نے اپنے اپنے انداز میں نیب کی طرف سے گرفتاری کی بات کی کہ نیب نے عید کے بعد آپ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔رونے دونے شہباز کی بندر پھرتیاں دیکھنے والی تھیں۔مہر جیسا آدمی جوکہ اس کا سیاسی مخالف ہے۔وہ بھی عش عش کر اُٹھا۔اس نے جو ڈائیلاگ بازی کی وہ اپنی مثال آپ تھی بس یہ جملہ کہ ہزار مزے دار لگا کر ہم قید سے ڈرنے والے نہیں ہیں لیکن جب نیب اس کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچی تو نیب کے دفتر سے اس کے کسی پرانے خدمت گزارنے مخبری کردی کہ ہم لوگ نہیں نیب اس کو گرفتار کرنے پہنچ رہی ہے۔موصوف ایسے رفو چکر ہوئے اپنے گھر سے کہ سب بھڑکیں دھری رہ گئیں۔دنیا نے دیکھا جو اپنے دور حکومت میں ایک طاقت اور مکران بنا بیٹھا تھا”چوہے“ کی طرح فرار ہوگیا اور وکیلوں کے مجسٹریٹ میں ہائی کورٹ پہنچ کر اپنی ضمانت کروائی۔اس کو بھاگتادیکھ کر1970کے الیکشن کا ایک واقعے یاد آگیاکہ لاہور سے ملتان جانے والی ایک ٹرین میں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں ممتاز دولتانہ سفر کررہے تھے۔دولتانہ صاحب کو جب پتا چلا کہ بھٹو بھی اسی ٹرین میں ہے تو انہوں نے اگلے اسٹیشن پر اتر کر چل دیئے۔بھٹو کی نظر پڑی تو اس نے زور زور سے آواز کسنی شروع کردی کہ وہ دیکھو چوہا بھاگ رہا ہے۔آج مجھے بھی اس کے نیب کے خوف سے فرار نے میرے اندر بھٹو زندہ کر دیا کہ وہ دیکھو ”شہباز چوہا بھاگ رہا ہے“ہم سب جانتے ہیں کہ اس کو پولیس اور نیب میں بیٹھے پرانے دوست گاروں نے اس کو مخبری کرکے اطلاع دی اور اس کو بھگا دیا۔اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور تمام انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کا پتہ لگائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ آئندہ کوئی سرکاری ملازم حکومت کی تجوریوں سے تنخواہ لے اور کام چوروں کے لئے نہ کرے۔
ایک اور شوشہ جو آجکل اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنا ہوا ہے وہ نوازشریف کی لندن سے چائے یا کافی پیتے ہوئے اپنے خاندان کی کچھ خواتین کے ساتھ تصویر ہے۔کیا کیا مزے دار وجوہات اس کی تصویر کے حوالے سے دی گئیں۔جن میں ایک یہ تھی کہ اس تصویر کا مقصد پاکستان کی عوام کو یہ بتانا مقصد ہے کہ وہ بالکل ہشاش بشاش ہیں اور جلد واپس آکر چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے تیار ہیں۔کیا کمال کی پیشگوئیاں ہیں اور کیسی کیسی امیدیں ان کے اندر چل رہی ہیں۔تاحال ان کرپٹ لوگوں سے ایک پائی بھی وصول نہ کرنے پر حکومت اپنی گورننس کا مذاق خود بن گئی ہے،عمران خان فوری ایکشن لو ورنہ گھر جاﺅ۔