صورت حالات!

0
290
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام!اللہ رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ اور آپ کے پیارے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کرونا کی قیامت خیزی اور ہولناکیوں سے محفوظ رہیں۔ہمیں اپنے کالم کا آغاز ایک انتہائی اندوہناک خبر سے کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان نیوز کے پبلشر اور صدر برادرم مجیب لودھی کے بزرگ چچا اور ہمارے ادارتی رفقاءمحمد مدثر میاں ومحمد نوید اطہر کے والد محترم اسی وباءکاشکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔انا اللہ واناالیہ راجعون، یہ خبر ہم سب کے لئے انتہائی دکھ ورنج کا سبب بنی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ہم سب دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ہر دو مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور مجیب لودھی،میاںمدثر، میاں نوید اطہر وتمام لواحقین کو اس نقصان عظیم کو برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔نیز صبرجمیل عطا فرمائے،آمین ۔واضح رہے کہ دونوں مرحومین پاکستان میں قیام پذیر تھے۔پاکستان میں کرونا کے پھیلاﺅ میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔کہ پاکستان متاثرین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر آچکا ہے۔اس کی ہولناکیوں کے بارے میں ماہرین اور دیگر صحت کے ادارے واضح کر رہے ہیں۔کہ ابھی اس وباءکے پھیلاﺅ کی انتہا آنی ہے اور اگر اس حوالے سے سخت احتیاطی وعملی اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان امریکہ و یورپی ممالک کی طرح بہت متاثر ہوسکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کا نظام صحت یورپ و امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت نچلے درجہ پر ہے،سہولیات کی کمی کے باعث اس وبا سے عہدہ براءہونا نسبتاً مشکل ہے۔اس کے باوجود رمضان سے پہلے تک اس وباءکے پھیلاﺅ اور اس کے باعث اموات کی شرح میں تیزی نہیں آئی تھی۔NCOCکے توسط سے ایک جانب تمام ریاستی وحکومتی ادارے اس سے نبٹنے کے لئے مصروف تھے تو دوسری جانب اس امر کی بھی کوشش تھی کہ کم وسائل کے طبقات کو اس وباءکے باعث ہونے والے معاشتی اثرات سے بچایا جائے مگر ان تمام کوششوں میں وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی چپقلش،عدم تعاون نیز حکومتی ومخالف اشرافیہ کی سیاست نے مثبت نتائج کو معدوم کردیا۔سب سے بڑھ کر عوام کے اس وباءکو سنجیدہ نہ لینے اور اسے محض ایک پروپیگنڈہ سمجھتے ہوئے احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کے رویے نے صورتحال کو قابو سے باہر کردیا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ10ہزار پر پہنچ گئی ہے جبکہ اموات تین ہزار کی حد تک کو چھو رہی ہیں۔جزوی لاک ڈاﺅن، اسمارٹ لاک ڈاﺅن کی موشگافیوں، رمضان اور عید کے حوالے سے کاروبار کھولنے، مسجدوں میں نماز تراویح کی اجازت دینے، بعض انڈسٹریز کو کھولنے کے فیصلوں نے بھی اس وباءکو تیزی بخش دی۔وجہ یہ کہ عوام اپنے معاشرتی مزاج کے باعث اپنے رویے کو احتیاطی ضابطہ کار پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہو رہے تھے۔بازاروں میں اجتماعات میں کہیں کوئی احتیاطی تدابیر نظر آرہی تھی۔نتیجہ یہ کہ اس وقت ہر طبقہ فکر ومعاشرہ کے افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔حکومتی وزراءرہنما، مخالف سیاسی اشرافیہ، میڈیا اراکین، عوام کی بڑی تعداد اس وبا کے حصار میں ہیں۔ڈاکٹرز وطبی عملہ کی بڑی تعداد شکار ہوئی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ایشو پر تمام سیاسی قوتیں اور ادارے تمام فروعی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر ہم آواز وعمل پیرا ہوتے لیکن ہوتا یہ رہا کہ وفاق اور صوبے سیاسی بنیادوں پر دست وگریبان رہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کرتے رہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی جگہ، اپنی چودھراہٹ وبرتری ثابت کرنے پر ہی رہے ہیں۔پارلیمنٹ ہو، میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا سلسلہ جاری رہا۔وزیراعظم ٹوئیٹس کے ذریعہ اپنے موقف کی حمایت میں کرونا کے حوالے سے اقدامات کو لیڈنگ قرار دیتے رہے۔مخالفین ان کی مخالفت حکومتی فیصلوں کو وباءکی افزائش قرار دیتے رہے۔اس صورتحال میں باہمی اتفاق ور تعاون کے فضا قائم کرنے کی جگہ نیب کیسز،شوگر آٹا سیکنڈلIPP کی ڈرامہ بازیاں جاری رہیں۔میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے مثالی نہیں کہا جاسکتا۔شوبز میں سیاسی مخالفین کو بیٹھ کر ریٹنگ بڑھانے کا کھیل جاری رہا۔حکومت کے حمایتی چینلز اور اینکرز تعریف کے قلا بے ملانے اور مخالف دھجیاں اڑانے کو ہی اپنا ماحصل سمجھتے رہے۔
پاکستان اپنی جغرافیائی صورتحال کے باعث جن حالات سے دو چار ہے اُس میں نہ صرف اندرونی طور پر اسے ایک متحد و منظم مملکت کے طور پر کھڑا ہوناہے بلکہ بیرونی دنیا کو بھی باور کرانا ہے کہCOVID19کے باعث بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ میں وہ ایک خود مختار وآزاد ریاست ہے۔ملک کو ایک جانب بھارت کی اپنی اندرونی ناکامیوں کی توجہ دنیا سے ہٹانے کے لئے ایل او سی پر چھیڑ چھاڑ اور فالس اسٹرائیک کا سامنا ہے تو دوسری جانب چین اور بھارت کے درمیان لداخ کی صورتحال پر نظر رکھنی ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس صورتحال میں امریکہ بھارت کی پشت پر اپنے متعینہ مقاصد کے لئے اپنا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔بدلتے ہوئے عالمی حالات میں امریکی انتظامیہ اپنی عالمی برتری ومعاشی سبقت کو بچانے کے لئے چین کے خلاف بھارت کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔پاکستان اس کے اثرات سے معاشی طور پر بھی اور حربی حوالے سے بھی متاثر ہوسکتا ہے۔میڈیا اور بعض حلقوں میں خوش فہمی کہ چین اور بھارت کی اس لڑائی سے کشمیر کی آزادی یا پاکستان کی بھارت پر برتری کی راہ بنے گی،محض خام خیالی ہے ۔اس لئے کہ چین کی طاقت اس کی مضبوط معیشت ہے اور بھارت سے اس کی90ارب ڈالر کی ٹریڈ ہے اور چین کبھی اس حد تک نہیں جائے گا۔ جہاں اسکی معیشت متاثر ہو۔
پاکستان اس حوالہ سے ایک منفرد ملک ہے کہ یہاں آئے دن کوئی نہ کوئی ایک ایشو یا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے گزشتہ ہفتے خود کو بلا گر کہنے والی ایک امریکی خاتون سنتھیارچبی نے ایک وڈیو کے ذریعے پیپلزپارٹی کے رہنما، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے حوالے سے انکشاف کیا کہ2011میں اسکے ایوان صدر میں قیام کے دوران اسے ریپ کیا جبکہ اس وقت کے وزیراعظم اور وزیر صحت نے دست درازی کی۔اس نے شہید بےنظیر بھٹو اور بلاول کے حوالے سے اس قسم کی الزام تراشی کی جو قابل تحریر نہیں۔آخر یہ خاتون کون ہے،ایوان صدر تک اس کی رسائی کیوں تھی اور یہ کس کے لئے کام کرتی ہے۔میڈیا پر اس حوالے سے بہت سی باتیں ہو رہی ہے۔رامتم العروف اس حوالے سے صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہماری قوم خصوصاً اشرافیہ گوری چمڑی کے حصار سے ابھی تک نہیں نکلی ہے، احساس غلامی ہے یا یہ سوچ کہ گورا جو بھی ہو اس سے تعلق ہماری عزت کا موجب ہے۔یہ عورت2017میں شکاگو آئی تو اسے23مارچ کی تقریب میں قونصلیٹ کی جانب سے مہمان خصوصی بنایا گیا،شنید ہے کہ اسے رحمان ملک کے حکم پرملٹی پل ویزہ دیا گیا۔آخر اس کی کیا پوزیشن ہے کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ ق لیگ، جے یو آئی اے این پی سمیت بیشتر جماعتوں کے رہنماﺅں کے حوالے سے اسکے پاس آڈیوز وڈیوز، فون کالز ٹیپس ہونے کی دعویداری ہے۔خصوصاً موجودہ حالات میں یہ کس کے لئے کام کر رہی ہے اور کس کے ایجنڈے پر پاکستانی ریاستی اشرافیہ کو بدنام کرنے کا کام اسے سونپا ہے۔ان سوالات کا جواب تو مل ہی جانا ہے لیکن ہماری اشرافیہ کو گوری چمڑی کے سحر سے نکلنا ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here