جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
امریکہ کی تاریخ میں 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی امریکی پارلیمان کیپیٹل ہل پر چڑھائی اور نومنتخب امریکی صدر کی کامیابی کی تصدیق و توثیق کیلئے ہونےوالے مشترکہ اجلاس کو تہس نہس کرتے ہوئے تشدد و توڑ پھوڑ کو جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی سیاسی اشرافیہ، میڈیا، تھنک ٹینکس اور جمہوریت پسند عوام اس حوالے سے اپنے رد عمل اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو دنیا کی سب سے مضبوط، قدیم ترین اور مثالی جمہوریت پر بدترین طمانچہ قرار دے رہے ہیں، سابق صدر جارج بُش نے اس واقعہ پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی جمہوریت میں بنانا جمہوریتوں میں ہونےوالے واقعات سے متماثل قرار دیا ہے۔ صدر بل کلنٹن اور باراک اوبامہ نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ اور اس کے حواریوں کے اس اقدام کو امریکی جمہوریت کی پیٹھ میں چرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔یہی نہیں”ٹرمپ کے نائب صدر پینس اور سیکرٹری آف اسٹیٹ پومپیو نے بھی تنقید کرتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے“۔ٹرمپ کی کابینہ کے وزراءاور وہائٹ ہاﺅس میں ڈپٹی سیکیورٹی ایڈوائزر احتجاجاً مستعفی ہو گئے ہیں، حتیٰ کہ ٹرمپ کے قریبی ریپبلکنز اراکین پارلیمنٹ بھی اس حوالے سے سراپا احتجاج ہیں اور ٹرمپ کے اس اقدام پر ناپسندیدگی اور سخت اقدامات کے حامی ہیں۔ اس واقعہ پر اقوام متحدہ کے صدر اور سلامتی کونسل کے سیکرٹری، یورپی یونین کے انسانی حقوق کے سیکرٹری، نیٹو، کے علاوہ برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت متعدد یورپی و دیگر ممالک کے سربراہوں اور حکومتوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پارلیمان پر حملے کے واقعات سے تو قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکہ سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے اس کی تفصیلی کوریج کی، کس طرح ٹرمپ کے بلاوے پر اس کے سپورٹرز وائٹ ہاﺅس پر جمع ہوئے اور ٹرمپ کی زہر آلود تقریر پر ہزاروں کا یہ مجمہ کس طرح کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہوا۔ البتہ اس حوالے سے بہت سے سوال سامنے آتے ہیں بالخصوص وائٹ ہاﺅس جیسے کمپلیکس کے حوالے سے جہاں امریکی صدر کا سیکرٹریٹ ہونے کےساتھ پارلیمان، پینٹاگان و دیگر حساس اداروں کے دفاتر ہیں اور جن کی سیکیورٹی کی حساسیت انتہائی اہم ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہنگامہ پرور کیپیٹل ہل تک کیونکر پہنچے جبکہ وہاں سارے امریکہ کے منتخب نمائندوں اور سینیٹرز کا اجلاس نائب صدر امریکہ کی صدارت و اسپیکر کی معیت میں جاری تھا، سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس اہم ترین جگہ پر اہم ترین اجلاس کے موقعہ پر سیکیورٹی کے مطلوبہ انتظامات کا مکمل بندوبست کیوں نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ وائٹ ہاﺅس کے مکمل کمپلیکس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری کیپیٹل پولیس اور نیشنل گارڈ کو کرنا ہوتی ہے جبکہ ڈی سی کی میٹروپولیٹن پولیس ان کی معاونت کرتی ہے۔ کیپیٹل پولیس اور نیشنل گارڈز کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے جبکہ لوکل پولیس میئر کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ ایک اہم ترین اجلاس کے بموجب کیپیٹل پولیس اور نیشنل گارڈز کی نفری میں اضافہ صدر کی منظوری سے مشروط تھا لیکن یہ سارا فساد چونکہ خود صدر کا پیدا کردہ تھا لہٰذا ٹرمپ کے دفتر سے ایسا نہ ہو سکا، ہوتا بھی کیسے کہ خود ٹرمپ نے ہی مجمع کو کیپیٹل ہل جانے کا کہا تھا اور خود واپس وائٹ ہاﺅس میں جا کر بیٹھ گیا تھا۔ اس دوران جو تباہی ہوئی، ایک خاتون فائرنگ سے مری، تین افراد بیماری کے سبب ٹریفک میں پھنس کر جان سے گئے، نمائندگان اپنے چیمبرز میں محبوس ہو گئے، غرض قیامت کا سماں تھا لیکن ٹرمپ اپنی شیطینیت کے زعم میں 3 نومبر کی شکست کی وجہ سے اپنے منفی ارادوں میں گُم تھا۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے جمہوریت کے حوالے سے تقریباً 9 دہائیاں قبل اسے وہ طرز حکومت قرار دیا تھا جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا، حقیقت میں ووٹنگ کیلئے بندوں کی گنتی کر کے زمام اقتدار اس بندے کو دیدی جاتی ہے جس کے حق میں زیادہ گنتی ہو، خواہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو، تیسری دنیا میں ہمارے جیسے ملکوں میں تو یہ ایک عمومی سلسلہ ہے اور اس کی بے شمار مثالیں بھی ہیں نیز اس کے پس پردہ عوامل و محرکات بھی ہیں لیکن امریکہ میں جسے مثالی جمہوریت کا گہوارہ کہا جاتا ہے، الیکٹورل ووٹس کے حوالے سے ایک چیک بہتر امیدوار کے انتخاب کا انتخاب کیا جاتا ہے یعنی جیتنے والے کو تولا بھی جاتا ہے۔ 2016ءمیں الیکٹرول کالج کے ناطے بد قسمتی سے جیتی ہوئی امیدوار ہیلری کلنٹن کی جگہ صدارت کا تاج ٹرمپ کے سر پر سجا دیا گیا۔ ٹرمپ کے حوالے سے یہ بات مُصدقہ ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونےوالا یہ شخص ذہنی طور پر متعصب، خود پسند، ضدی اور اپنے مفاد کیلئے ہر منفی حربہ اور جھوٹ اختیار کرنے کا عادی ہے۔ اس کی اس فطرت میں امریکہ میں کیوں مووومنٹ کے نام سے متحرک کردار مخصوص طبقے کا ہے، امریکہ میں اقتدار اور اختیار اس کی اولین ترجیحات میں ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے علاوہ کسی گروہ، طبقے، ذات، یا نسل کا امریکہ اور اس کے اقتدار و وسائل پر کوئی حق نہیں سمجھتا۔ امریکہ کی مختلف النوع و نسل آبادی میں تفریق و تضحیک کا زہر پھیلا کر، اس امر کا دعویٰ کہ امریکہ صرف ہمارا ہے اور Save Our Children ان کا نعرہ ہے۔ عام فہم زبان میں یہ طبقہ ریڈ نیک بھی کہلاتا ہے اور ریپبلکنز ان کی نمائندہ جماعت ہے جبکہ ڈیمو کریٹس کو یہ بائیں بازو اور کمیونسٹ کہتے ہیں۔ ٹرمپ ایک نفسیاتی شخص ہے اور اپنی فطرت کے باعث کاروبار، انٹرنیٹ، (ڈبلیو ڈبلیو ایف) سیاست غرض ہر شعبہ میں منفی کردار کا حامل رہا ہے۔
صدر بننے کے بعد اس نے جس طرح امریکی معاشرے کو تقسیم کرنے، مختلف حوالوں سے تعصب و نفرت پھیلانے، اسلحے کی ترویج و فروغ، مختلف قومی و بین الاقوامی ایشوز پر جھوٹ کے طومار باندھنے، اس نے امریکہ کی منفرد خوبصورتی کو نہ صرف دھندلا دیا بلکہ اسے ایک منقسم معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ رنگ و نسل، زبان، قومیت کی تفریق بڑھتی گئی۔ اس میں KKK، سفید فام قوت اور QANON جیسی تنظیموں کو قوت ملی حالیہ انتخابات میں ٹرمپ کے منفی رویوں خصوصاً کووڈ کے معاملات میں جھوٹ بولنے کے باعث اسے شکست کا سامنا ہوا۔ ٹرمپ نے اس شکست کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاج، سازشوں اور عدالتوں کا سہارا لینا چاہا لیکن ہر جگہ ناکام ہوا، جارجیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ سے نتائج کی تبدیلی، نائب صد رپینس سے الیکٹورل تصدیق میں روڑے اٹکانے کی سازش کی خواہش میں ناکامی اور سپریم کورٹ، فیڈرل کورٹ اور دیگر عدالتوں سے نامرادی کے بعد ٹرمپ نے 6 جنوری کو جمہوریت پر وار کا اقدام کیا جس میں متذکرہ متعصب گروہوں نے اس کا ساتھ دیا۔ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ اس قدر قیامت خیزی میں اس نے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کیلئے کئی گھنٹے لئے۔ الٹے سیدھے دھمکی آمیز ٹوئٹس کئے اور ٹوئٹر نے اسے ہمیشہ کیلئے بند کر دیا۔ ٹرمپ ابھی بھی اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا ہے اور نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے منکر ہے۔ بہر حال اس سب کے باوجود امریکی جمہوری نظام کی پائیداری اپنی جگہ برقرار ہے۔ ٹرمپ کےخلاف آئین کے آرٹیکل 25 کے نفاذ اور مواخذے کی قرارداد پارلیمان میں پیش کر دی گئی اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس قرارداد کی حمایت متعدد ریپبلکنز بھی کر رہے ہیں۔ ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں FBI اور دیگر ایجنسیز نے بھی پارلیمان کا وقار مسخ کرنے والے شرپسندوں کےخلاف گھیرا تنگ کر دیاہے، اب تک کی صورتحال کے مطابق 90 سے زیادہ افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔ اور مزید اقدامات جاری ہیں۔ حالات پر قابو تو پا لیا گیا ہے لیکن 6 جنوری کا یہ اقدام دو سو سال سے زائد روشن و مستحکم جمہوری باب کی تاریخ میں ایک بد نما داغ کی صورت میں برقرار رہے گا۔
٭٭٭