”امریکہ نازک ترین دور سے گزر رہا ہے“

0
141
پیر مکرم الحق

mukarampeer@gmail.com

آجکل، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ کسی تیسری دنیا کے ملک کی طرح سازشوں میں گھرا ہوا ملک ہے جس میں اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔شکست خوردہ سیاسی جماعت کے ارکان انتقال اقتدار نہیں چاہتے۔پچھلے دنوں تقریباً چالیس ہزار کے مجمعہ نے کیپٹل ہل یعنی وہ جگہ جہاں پر اسمبلی اور امریکی سینیٹ کے اجلاس اور مشاورت ہوتی ہے ،نئے قوانین بنائے جاتے ہیں یا ترامیم ہوتیں ہیں۔اس پر دھاوا بول دیا ،تمام دنیا نے یہ تماشہ دیکھا اور کچھ دل جلوں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ جو غدر اور افراتفری امریکی حکومتوں نے مختلف اوقات میں مختلف ممالک میں پھیلائی تھی آج وہ خود انہی مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔یعنی اس وقت امریکہ پر اللہ کے عذاب کے آثار ہیںلیکن دراصل امریکی نظام وعدل وانتظام اتنا مضبوط ہے کہ وہ یہ جھٹکا یا صدمہ بھی برداشت کر لے گا۔اس سارے وقت میں جو بات کھل کر سامنے آئی ہے وہ ہے سفید فام نسل پرستی کی سوچ میں اضافہ کا رحجان سیاہ فام یا رنگدار لوگوں سے نفرت کا کھلا اظہار، ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام نسل پرستی کا پوسٹر ہیں اور یہ بات نیویارک کیلئے نئی نہیں ہے اور انہوں نے2016ءکے انتخابات میں بھی نسل پرستی کارڈ کھیلا، ہیلری کلنٹن کے خلاف روس اور وکی لیکس کے ذریعے غلط بیانی اور افواہ سازی کروائی۔نسل پرستی امریکہ کیلئے کوئی نئی بات نہیں، غلامی کا خاتمہ اور نسلی علیحدگی کے قوانین کے خاتمہ کے بعد سفید فام اکثریت نے کبھی بھی اس ترقیاتی سوچ کو دلی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے کہ سیاہ فام لوگ ہمارے(سفید فام) برابر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدر بارک اوبامہ کا منتخب ہونا نسل پرست سفید فاموں کیلئے اس صدی کا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ سال تک بارک اوباما کی امریکہ میں پیدائش کی حقیقت پر متواتر سوالات اُٹھا کر اسے مشکوک بنا دیا۔منتخب صدر بائیڈن کی فتح کو ایک بہت بڑا فراڈ کہہ کر اس بنا پر اپنی فتح کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ٹرمپ کی حمایت کرنے والے بھی اس مبالغہ آرائی کو حقیقت تسلیم کئے ہوئے ہیں اور وہ کھل کر2020ءمیں ہونے والے صدارتی انتخابات کو مکمل فراڈ مانتے ہیں۔جب ان سے کوئی ثبوت کی بات کرے تو وہ کہتے ہیں۔کہ ہمیں تو ٹرمپ نے یہی بتایا ہے اور ہمیں ٹرمپ پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ سچ اور صرف سچ ہے۔ٹرمپ کی حمایت سے یافتگان یا حمایتی معمولی تعلیم رکھنے والے سفید فام میں جن کا پیرومرشد ٹرمپ ہے۔جو اس نے کہہ دیا وہ غلط نہیں ہوسکتا، ٹرمپ کے معاملے میں امریکہ مکمل طور پر تقسیم ہوچکا ہے۔حالانکہ جو بائیڈن کو اس انتخابی معرکہ میں اسی لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔کیونکہ انکے ووٹروں کی ایک اچھی خاصی تعداد میں سیاہ فام، ہسپانوی اور ایشیائی لوگ شامل ہیںجو حقیقت نسل پرست سفید فام لوگوں سے ہضم نہیں ہوتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے سفید فام لوگوں نے بائیڈن کی بھرپور حمایت کی ہے۔ٹوئٹر اور فیس بک نے ٹرمپ کی غلط بیانی سے تنگ آکر صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر اور فیس بک اکاﺅنٹ مستقل طور پر بند کردیئے ہیںادھر پانچ جنوری کو پارلیمنٹ بلڈنگ پر حملے میں ابتک کی رپورٹ کے مطابق پانچ اموات ہوچکی ہیں ۔واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرل نے اعلان کیا ہے کہ ان کا محکمہ اس بات کا تفصیل سے جائزہ لے رہا ہے کہ اس حملے کی ترغیب دینے کے الزام میں صدر ٹرمپ ، ان کے بڑے بیٹے اور دوسرے رفقا پر مقدمہ کیا جاسکتا ہے۔اب صدر ٹرمپ تنہا ہوگئے ہیں۔جب سے انکے چاہنے والوں نے نائب صدر مائیک پینس کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیاہے مائیک پینس نے بھی اپنے راستہ الگ کردیئے ہیں۔
دوسری طرف اسپیکر نے اسمبلی میں صدر ٹرمپ کی دوسری برطرفیIMPEACHMENTکا بل پیش کردیا ہے۔ٹرمپ ویسے بھی19جنوری اور20جنوری کی درمیان رات بارہ بج کر ایک منٹ پر امریکی صدر کے عہدے سے فارغ ہوجائینگے۔اس طرح جو بائیڈن20جنوری2021ءکی دوپہر کو حلف اُٹھا کر امریکہ کے 46صدر مقرر ہو جائینگے۔ٹرمپ نے اعلان کردیا ہے کہ وہ جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شامل نہیں ہونگے۔اس طرح انہوں نے یہ تاریخ بھی مقرر کردی کے امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں یہ چوتھے شخص ہیں جنہوں نے انکے بعد ہونے والے صدر کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔بحرحال وقت تو گزر جائیگا لیکن ٹرمپ جیسا متنازعہ صدر آج تک امریکہ کو نہیں ملا جسکی وجہ سے امریکہ کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ویسے بھی پرانے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ بہرکمال کو زوال ہونا ہے،صدارتی عہدے سے سبکدوشی کے بعد ٹرمپ پر مقدمات کی بھرمار ہونا شروع ہوجائے گی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here