کامل احمر
ہمارے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ ہم روزانہ ایک کالم لکھ سکتے ہیں۔ہر ہفتہ امریکہ جو50ریاستوں پر محیط ہے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات حادثات خبریں اور ہر ریاست کی اپنی اپنی کہانیاں COVID-19 تلے دبی اور ابھرتی کہانیاں سیاسی خلفشاریاں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن کے پیج زبانی جمع خرچ اور اس دوران عوام کی محرومیاں ایسے میں کہاں دھیان دینے کو دل چاہتا ہے۔کہ کرکٹ دیکھیں اور اپنی ٹیم کی شرمناک شکست اور کھلاڑیوں کی کھلواڑ، میدان میں غیر سنجیدہ حرکتیں بیٹ سے اس طرح بچنا کہ جیسے کسی غریب بچے کو دوکاندار کچھ چراتے پکڑ لے اور دھنائی کردے اور بچہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر، گال اور منہ کو بچائے نہایت شرمناک بیٹ کو بال سے بچائے رکھنے کی مہم، ہائی اسکول پاس بچوں کو لے کر جانا اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو پویلین میں بٹھائے رکھنا پھر اننگ184رنز سے ہار کر آنا اور مصباح الحق کا بیان دنیا کوCOVID-19کی وجہ سے ہم اچھا کھیل نہ کھیل سکے”جب کہ کسی نے کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی انکا یہ بھی کہنا”مجھے نکالنے سے کچھ نہیں ہوگا“درست ہم سمجھتے ہیں مصباح اور وقار کو نکالنا بے حد ضروری ہے اور دوسرے سفارشی کلرک ذہنیت کے لوگوں کاPCBسے چمٹے رہنے کا کوئی جواز نہیں یہ ہم بھی کہاں بہک گئے ہم پر بھی شایدCOVIDکا اثر ہے سب سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ پر جنہوں نے ایک بھرپور تقریر کر ڈالی اور چھ جنوری کو انکے حامیوں نے واشنگٹن ڈی سی میں قانون ساز اسمبلی بلڈنگ کیپٹیل ہل پر دھاوا بول دیا وہ بہت افسردہ تھے کہ ایک دن پہلے وہ اٹلانٹا(جارجیا) میں اپنی پارٹی کی دونوں سیٹیں گنوا چکے تھے۔ہمارا کہنا ہے اگر وہ وہاں نہ جاتے تو مینسٹر پرڈیو جیت سکتے تھے۔اب سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے پاس50,50سیٹیں ہیں اور کسی بھی بل یا قانون میں ترمیم کے لئے ایک پارٹی کو اپنی بات منوانے کے لئے51ووٹ درکار ہونگے یہ ایک ووٹ ڈیموکریٹ پارٹی کی کملا حارث کا ہے اور اس طرح اگلے چار سال ڈیموکریٹ کی برتری ہوگی۔ اس کے ایک دن بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو امید تھی کہ انکے نائب صدر الیکٹوریل ووٹوں کی تصدیق نہیں کرینگے۔(قانون کی روسے)لیکن یہاں بھی انہیں مایوسی ہوئی یہاں یہ کہتے چلیں کہ ایسا کرنے سے ٹرمپ صاحب نے دوبارہ صدارت(2024)کے لئے دروازے بند کردیئے ہیں۔ممکن ہے ووٹوں کی گنائی میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ممکن ہے ساﺅتھ امریکہ میں بنے کمپیوٹر نے انکی جگہ بائیڈن کو ووٹ دلوا دیا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ مرلے ہوئے لوگوں کے ووٹ ڈیموکریٹ پارٹی کو پڑے ہوںلیکن قانون کی بساط پر انکو ثابت کرنا ضروری ہے اور تھا وقت نکل گیا اور اب بازی آنے والے چار سالوں میں ڈیمو کریٹ کے پاس ہے لہٰذا وہ سب کچھ کرسکتے ہیں،ہر چند ان کے لئے20جنوری کے بعد امتحان بلکہ کڑا امتحان ہے کہ کس طرحCOVID-19سے نجات ہو تمام شہریوں کو ویکسین لگ جائے جس پر تیزی سے تو نہیں تندہی سے کام ہو رہا ہے اور اسکے پورے بزنس کی تباہ کاریوں سے نیچے سے اوپر والے طبقے میں بے یقینی کی فضا کو ختم کیا جائے۔ باقاعدہ طور پر دونوں پارٹیوں نے آستینیں چڑھا لی ہیں،ہاﺅس سپیکر نینسی پلوسی ایک خوفزدہ بلی کی مانند ٹرمپ سے ڈری ہوئی ہیں اور انہوں نے نائب صدر مائک پینس سے کہا ہے صدر ٹرمپ کو فارغ کیا جائے۔ڈیموکریٹ کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کوIMPEACH(مواخذہ)صدارت سے فارغ کیا جائے جس کے لئے وقت بالکل نہیں اگر کارروائی شروع ہوئی تو صدر ٹرمپ تاریخ کے پہلے صدر ہونگے جنہیں ایک ہی مدت میں دوبار مواخذے کا سامنا ہوگا۔صدر ٹرمپ استعفیٰ دینگے اس کے امکانات ہیں۔25ویں ترمیم کے تحت اگر صدر کام کرنے کے قابل نہ ہو تو اسے ہٹا کر نائب صدر کو صدارت ملے گی۔اس کا فائدہ یہ ہوگا ڈونلڈ ٹرمپ کو انکے سارے الزام یا ان پر ہونے والی قانونی چارہ جوئیاں ختم ہوجائینگی۔اس صورت میں کہ مائیک پینس انہیں معافی دے دیںلیکن صدر ٹرمپ کے لئے یہ بے حد مشکل اور ذلت آمیز ہوگاممکن ہے انکے پاس کوئی دوسرا راستہ ہو ،ابھی8دن باقی ہیں۔
ایک برُی بات بلکہ غیر قانونی بات ہوئی ہے وہ ہے ہائی ٹیک کمپنیوں کا گٹھ جوڑ جس کے تحت صدر ٹرمپ پر سوشل میڈیا میں آنے پر پابندی ہے۔خیال رہے ٹویٹر پر انکے چاہنے والوں کی تعداد24800ہے اور فیس بک پر47158جب کہ بائیڈین کے حمائیتوں کی تعداد ٹویٹر پر257900اور ٹویٹر پر3900ہے۔یہ دونوں عوام تک اپنی بات پہنچانے کا موثر ذریعہ ہیں۔اور ابTVدوسرے نمبر پر آتا ہے ،حال ہی میں ان بڑی کمپنیوں نے پارلرPARLERنامی کمپنی پر پابندی لگائی ہے۔یعنی پارلر کو عوام تک لے جانے سے انکار کردیا ہے۔ایسی اور بڑی کمپنیاں ہیں ایپل، گوگل، امیسروں، فیس بک مائیکروسافٹ عام لفظوں میں یہ ریل گاڑی کا انجن ہیں جو دوسری کمپنیوں کے ڈبوں کو جن میں پارلر، وہاٹس اپ، میسنیجر، ٹک ٹوک وغیرہ کو عوام تک پہنچاتی ہیں۔پارلر کو خاموش کرنے کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو ایسے استعمال کرتے تھے اب چونکہ صدر ٹرمپ کا سورج ڈوب رہا ہے تو یہ ڈیموکریٹ کی گاڑی کے انجن بننے پر اپنے حق میں فائدہ مند سمجھنے لگے۔تجزیہ نگاروں اور ریٹائرڈ جنرل کے علاوہ اخبارات نے اس پر احتجاج کیا ہے کہ یہ آزادی تقریر جو پہلی ترمیم یعنیIST AMENMENTکے خلاف ہے۔یہ شخص آزادی کے قتل کے مترادف ہے،سینئر قانون دان پروفیسر ایلن درشکووز نے پہلی ترمیم کے دفاع میں ایسے فعل کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
چھ جنوری کو کیپٹیل ہل پر جو صدر ٹرمپ کے حامیوں نے حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا،اس پر ڈیموکریٹ پارٹی چراغ پا ہے یہ درست ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں لاقانونیت کا یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے اور بدنما داغ دنیا کیا کہتی ہے اس سے پہلے بھی امریکہ کو برُا بھلا کہا جاچکا ہے اور ڈیموکریٹ کے حامیوں نے کئی شہروں میں وہاں کے گورنر میئر اور دوسروں کے ساتھ مل کر ہنگامہ آرائی اور لاقانونیت کاپرچار کیا تھا پچھلے سالBLACK LIVES MATTERکے بینر تلے جس کی زد میںاٹلانٹا، واشنگٹن ڈی سی، فلاڈیلفیا آئے تھے اور شہری آزادی ختم ہوگئی تھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب امریکہ کی سیاست بڑی بڑی کارپوریشنز کے ہاتھ میں ہے۔ماسٹر کارڈ، یو پی ایس ڈو، بلیک راک، ایر بی این بی، سٹی بنک،3ایم، فیس بک، فورڈ، گوگلز، آئی سی آئی، بلوشیلدبلو کراس میریٹ، مائیکروسافٹ ان سب نے فیصلہ کیا ہے جو سیاستدان انکی اعلیٰ قدروں کے خلاف جائیں گے،وہ انکو چندہ نہیں دینگے ،انتخاب لڑنے کے لئے ہے ناخطرے کی بات؟۔
٭٭٭