تنگ آمد بجنگ آمد!!!

0
243
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
تقریباً ہر روز اپنے آبائی گاﺅں موضع شیخ برہان جو کمالیہ شہر کے قریب واقع ہے، یہیں پر ابتدائی تعلیم ہوئی، لوکل سکول میں پرائمری پاس کی یہی سے کوئی دس گیارہ سال کی عمر تک رہا تو ہر روز تقریباً فون کرتا ہوں، بھانجے بھتیجے ہیں، عزیز و اقربا ہیں۔ مجھے گاﺅں سے باسٹھ تریسٹھ سال ہو گئے ہیں نکلے ہوئے مگر گاﺅں کو اپنے وجود سے نہ نکال سکا۔ آج بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسا گھر مسجد کنواں (کھوہ جہاں تھوڑی بہت زمین تھی) والدین کی خوشبو، ویسی کی ویسی بلکہ یہاں میں اپنے آپ کو مسافر سمجھتا ہوں، مسجد پرانی ہو گئی تھی، میرے بچوں نے اللہ انہیں جزائے خیر عطاءفرمائے۔ گرا کر نئی بنیادیں کھود کر ایک خوبصورت مسجد تعمیر کر دی ہے اور مو¿ذن اور امام کا تقرر اور مسجد کے اخراجات بھی اپنے ذمے لے لئے، اس بہانے بھی فون کال کرنی پڑتی ہے تاکہ مسجد کی کوئی ضرورت پیچھے نہ رہ جائے، پہلے پہل کال کرتا تھا، لوگ خوش حال تھے، دو دو تین ایکڑ کی ملکیت ہے، دس مرلے سبزی کیلئے مختص کر لیتے ہیں باقی گندم، کپاس، گنا، مکئی اور چنا وغیرہ لگا لیتے تھے۔ گاﺅں والوں کی تنخواہ تو ہوتی کوئی نہیں، جو جنس نکلتی ہے، مندی کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ آڑھتی گھر بیٹھے مفت کے چوہدری ہیں۔ جن سے اچھے تعلقات ہوتے ہیں انہیں جلدی فارغ کر دیتے ہیں، غریب غرباءکی جنس جب خراب ہونے لگتی ہے تو اونے پونے داموں میں بیچ دیتے ہیں جس سے چھوٹے کاشتکار متاثر ہوتے ہیں، پر انہیں کیا پرواہ! بڑے زمینداروں کے بڑے تعلقات ہیں ،ان کو بیج بھی مفت میں مل جاتا ہے، کھاد پہ سبسڈی بھی مل جاتی ہے، مل ملا کر ان کے وارے نیارے ہیں، گاﺅں میں بجلی آجانے سے گھر گھر ٹی وی اور فریج بھی آگئی۔ جن کے بل ااجانے سے غریب کاشتکاروں کی چیخیں نکل رہی ہیں، گاﺅں والوں کی ماہانہ آمدنی تو ہوتی کچھ نہیں ہے جنس پر ہے جس کا تیا پانچہ منڈی پر ہو جاتا ہے بات لمبی ہو گئی، جب بھی کال کرتا ہوں جس عزیز سے بات ہوتی ہے وہ بلوں سے لے کر آٹا، سبزی، اور ضروریات کو پورا نہ ہونے کا رونا رونا شروع کر دیتا ہے۔ سن لیتا ہوں، آنکھوں میں آنسو آتے ہیں،ش ہر والوں کو کال کرتا ہوں ان سے زیادہ دکھی کوئی نہیں، سو روپے کلو آٹا وہ بھی ناپید، روٹی گھر میں پندرہ سولہ روپے کی پڑر ہی ہے، تندور والے بیچارے کیا کریں، کرونا نے ہلکی پھلکی نوکریاں تباہ کر دیں، دیہاڑی ختم ہو گئی، گھر میں فاقے اب حالت یہ ہے کہ کال نہ کریں تو رہ نہیں سکتے اور کر لیں تو دکھ سن نہیں سکتے اوپر دیکھتا ہوں وہی پرانی بحث چل رہی ہے پچھلے کھا گئے ہم کیا کریں، میڈیا والے اائے دن نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں تاکہ عوام کو مصروف رکھیں، ارباب اختیار ہوں یا حزب اختلاف ان کی تنخواہیں مقرر ہیں، ان کے اسمبلی والے سینیٹ والے ہوٹل میں دال روٹی اب چند روپوں میں مل جاتی ہے، وہ کیا جانیں کہ عوام اس وقت کس قیامت سے گزر رہے ہیں، میں ایک چھوٹا سا مسجد کا خطیب ہوں خود بھی اور نمازیوں سے بھی ہر جمعہ اپیل کرتا ہوں ہمت کر کے ہر مہینے بچت کر کے اپنے پاکستان عزیزوں کو تھوڑے تھوڑھے پیسے بھیجیں، تاکہ کچھ نہ کچھ حصہ ڈال سکیں سارا ملک تو بہر حال اختیار والوں کے ہاتھ میں ہے، ڈر ہے کہ کہیں بھوکی عوام کچھ کر نہ بیٹھے اللہ ہم سب کی مدد فرمائی، آمین ثم آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here