پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
عالمی سطح پر کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے اس مرض نے پوری دنیا میں دس لاکھ پچاس ہزار لوگوں کی ابتک جانیں لے لی ہیں۔دنیا کا سب سے طاقتور ملک اپنے صدر سمیت ستر لاکھ سے زیادہ لوگوں کوبیمار کر چکا ہے۔بظاہر ہے بات ماننے والی نہیں کہ جس ملک میں طبی سہولیات کا معیار اتنا اچھا ہو وہاں ستر لاکھ مریض جس میں سے دو لاکھ دس ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔اب یہاں امریکہ میں کرونا وائرس کی دوسری لہرSECOND WAVEکی بات ہو رہی ہے۔کیونکہ موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہے جس میں ویسے بھی اچھے خاصے لوگ جن میں اکثریت صغیف العمر لوگوں کی ہوتی ہے ان میں عام زکام، ونزلہ FLWہو جاتا ہے اور ہر سال دس سے پندرہ ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔لیکن اگر کرونا وائرس کی دوسری لہر آگئی تو سال کے آخر تک ایک تخمینے کے مطابق ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگ مزید لقمہ اجل ہوسکتے ہیں۔یعنی چار لاکھ لوگوں کی امریکہ میں اموات امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہوگا۔صدر ٹرمپ آخری خبروں تک والڈ یڈ ہسپتال میری لینڈ میں داخل ہیں۔بخل تک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کا نقابMASKانکے مذاق کا نشانہ تھا آج قدرت انکی بے بسی اور نقاہت پر مسکرا رہی ہے۔صدر ٹرمپ اکیلے اس وبا کا شکار نہیں ہوئے بلکہ دوچار سینٹرز دس کے قریب وائٹ ہاﺅس کا عملہ اور تو اور انکی اہلیہ بھی اس وبا کا شکار ہونے سے بچ نہیں پائیں۔حالانکہ صدر ٹرمپ جنون کی حد تک صفائی پسند ہیں۔اس بیماری سے پہلے بھی وہ غیر اہم،انجانے افراد اور عام آدمی سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے۔لیکن انہوں نے جو بدترین غلطی کی وہ ماہر ڈاکٹروں کے تجویز کردہ نقابMASKکو کمزوری کی علامت سمجھتے ہوئے نہ ہی خود پہنا نہ ہی اپنے عملے کے اس عمل کو پسند کیا اور ماسک پہنے وزراءسے بھی اس وقت تک بات نہیں کرتے تھے۔جب تک وہ اپنا ماسک اتار نہیں دیتے تھے جس کے نتیجے میں آج انکے دس قریبی رفقا آج اس مذہبی مرض کا شکار ہیں ا ور انتخابات میں تیس دنوں سے بھی کہ عرصہ رہ گیا ہے۔بدقسمتی دیکھئے صدر ٹرمپ کے انتخابی مہم کے انچارج اور پریس سیکرٹری بھی اس مرض کا شکار ہوکر دو ہفتہ تک کورنئین میں قید تنہائی میں ہونگے چاہیے اپنے گھروں میں یا ہسپتال کے کمرے میں جسکے دوران نہ وہ اپنے بچوں اور اسی گھر میں رہنے والے اپنے عزیز واقارب سے مل سکیں گے۔آج ہیں امریکہ کے اٹارنی ویلیم باز رضاکارانہ کورنئین میں چلے گئے ہیں کیونکہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کی خالی آسامی جوکہ مرحومہ جج اتھہ بیڈر گنبرگ کی87کی عمر میں اچانک فوت ہونے پر پیدا ہوگئی تھی۔اس آسامی کیلئے صدر ٹرمپ نے ایلیٹ کورٹ کی قدامت پرست جج ایملی کونی بیریٹ کی نامزدگی کی تقریب میں ڈیڑھ سو کے قریب شرکاءکے ساتھ شرکت کی تھی۔اس سارے مجسمہ میں نوے فیصد افراد بعید کیس ماسک کے شریک ہوئے تھے کو سماجی فاصلہ بھی نہیں تھا کہا یہ جارہا ہے کہ اس اجلاس نے اقتدار کے ایوانوں میں کرونا وائرس کو بری طرح پھلا دیا ہے۔اور بے نامزدگی اجلاس صدر ٹرمپ کی دوبارہ منتخب ہونے والی کوششوں پر کافی حد تک پانی پھیر گیا۔مخالف صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے پول نمبر کافی حد تک آگے نکل گئے۔پہلی صدارتی ڈبیٹ جوکہ29ستمبر کو کلیولینڈ اور مایوOHIOمیں وقوع پذیر ہوئی تھی اس میں صدر ٹرمپ نے77سالہ جوبائیڈن کو سست اور کمزور کہہ کر خوب مذاق اڑایا امریکی عوام نے ایک بزرگ آدمی کی تضحیک کو بالکل نہیں پسند کیا اور فوراً بعد ہونے والے پولز میں جوبائیڈن صدر ٹرمپ سے قومی سطح پر پندرہ پوائنٹس کی سبقت لے گئے تھے۔اب جب سے صدر ٹرمپ بیمار پڑ گئے ہیں بدتری گھٹ کر دس پوائنٹس پر آگئی ہے دوسری طرف اٹارنی جنرل بل بار کی رضاکارانہ کورنٹین کو مشکوک نظروں سے پرکھا جارہا ہے۔کیونکہ پچھلے کچھ عرصہ سے صدر ٹرمپ کو قانونی طور پر جو ساتھ بل بار نے دیا ہے اسے قانونی ماہرین کے سرکل میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔انتخابی صورتحال سے دلشکنی کا شکار صدر ٹرمپ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں جس کے لئے انہیں اٹارنی جنرل کی حمایت درکار ہوگی۔انکا اس موقعہ پر رضاکارانہ کورنٹین میں چلے جانا معنہ خیز محسوس کیا جارہا ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں کئی اور سربراہان مملکت کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا رہے ہیں، بورس جانسن برطانوی وزیراعظم بھی شدید علالت میں بطور انکی قریب المرگ رہ چکے ہیں۔کرونا وائرس ایک ایسا موضی مرض ہے جس سے انسان کبھی بھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوتا ہے۔ایسے مریض کے پھپپھڑے کافی عرصہ تک صحت مند نہیں ہو پاتے۔اس لئے بورس جانسن کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ بورس جانسن نہیں جوکہ کرونا ہونے سے پہلے تھا ان کے علاوہ بھی برازیل کے صدر جائر بولسونارو بھی کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد حال ہی میں صحتیاب ہوچکے ہیں۔قارئین ان تینوں رہنماﺅں میں ایک قدر مشترکہ ہے کہ وہ تینوں تک مزاج آمرانہ طرز عمل رکھتے ہیں اور کرونا وائرس کو ایک عام بیماری سے تشبیہ دیتے ہوئے نقاب یا ماسک کو کمزوری کی علامت سمجھتے اور اس کااستعمال ہرگز نہیں کرتے تھے۔قدرت کاکرشمہ دیکھئے انکا تکبر باوجود اسکے کے وہ سربراہان مملکت تھے ان طاقتور ممالک کے ایک چھوٹے سے بیکٹریا نے انہیں بے بس وبیمار کرکے انکے پھیپڑوں کو ہمیشہ کیلئے اپنی مہر لگا کر داغدار کردیا۔
ان اللہ الاکل شین قدیر