آج پاکستان کی عوام ایک صدمہ کا شکار ہے ہمارے رہنمائوں نے جو دکھ دیئے ہیں ان دکھوں نے ہمیں نڈھال کر دیا ہے۔ہماری مثال اس چھوٹے بچے کی سی ہے جو ریت پر پڑی ہوئی اس سنسری پنی کو دیکھ کر بھاگتا ہے کہ شاید وہ چاندی یا سونے کا سکہ ہے لیکن جب بھاگ کر قریب پہنچتا ہے تو مایوس ہو جاتا ہے کہ یہ بھی کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے ہمارے رہنمائوں نے ہمیں اتنا مایوس کیا ہے کہ امید کے سارے دیئے بجھتے جارہے ہیں۔اور اب تو ہم اپنا چہرہ گھٹنوں کے درمیان رکھ کر چیخ چیخ کر روتے جارہے ہیں۔اب تو کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں ہے کوئی بہلانے والا بھی نہیں۔اپنا اندر کھوکھلا اور خالی خالی لگ رہا ہے کیوں خواب دکھاتے ہیں کیوں جھوٹے وعدے کرتے ہیں؟ کیوں زخموں پر نمک چھڑتے ہیں اتنا تو کرسکتے ہو ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔کچھ نہیں دے سکتے ہو دوا نہیں دے سکتے تو دغا تو نہیں دو جس شخص نے کہا کہ وہ اقتدار میں آکر پاکستان کے لوگوں کی قسمت بدل دے گا ہمارے جواب پورے کریگی۔خوشیاں بانٹے گا اس شخص نے اپنے اردگرد حرص اور لالچ کے پجاریوں کا حصار بناکر خصوصی اشیاء کے لئے اپنا ضمیر بیچا،عوام کا اعتبار بیچا۔شراقت کا لبادہ اوڑ ھ کر انسانیت، شرافت اور ایمانداری کو سر بازار نیلام کیا۔اپنے وعدوں سے انحراف کرکے اسے نئے انداز کی حکمت عملی کا نام دیا۔حد تو یہ ہے کہ جس کے گھر کی خواتین نے پردوں میں رہکر رشوت ستانی، لالچ اور بے ایمانی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے یہ مان کیا ہم نے عوام کو کتنا بے وقوف بنایا۔کیا یہ اربوں ڈالروں کی رقوم سے ہے لوگ کبھی اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔ہرگز نہیں انہوں نے اپنی دنیا بھی گنوائی اور اپنی آخرت بھی خراب کی۔سونے ہیروں اور دولت کی جمک نے انہیں اتنا اندھا کردیا کہ کچھ نظر نہیں آیا۔چلو انکی اصلیت کو نظر کے تصور میں ہے فرشتہ صفت اور نجات دھندہ مسیحا تھے جن کا اصل چہرہ اتنا قابل نفرت اور مسخ شدہ ہے کہ ان کارکنوں نے جن کی زندگیوں میں پہلے سے مسائل اور مجرومیوں کا ذہر بھرا ہوا تھا اب مزید زخم لے کر زندگی بھر انکا اعتماد سچائی اور اخلاص سے اٹھاجائیگا۔سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان بچارے سادہ دل دنیائے سیاست سے نابلد ایک شخص کی دراز قد کرشماتی شخصیت کے سحر میں ڈوبے ہوئے اس کی ہر بات پر لبیک کہتے رہے کہ اتنی وعدہ خلافیوں چکنے چپڑے وعدوں کو بھلا دینے والے سیاستدانوں سے تنگ آکر عالمی شہرت رکھنے والے کھلاڑی پر آنکھیں بند کرکے یقین کر رہے تھے اب جو باتی سامنے آرہی ہیں ان باتوں کی شہادت سامنے آنے کے بعد وہ کارکنان اندر سے بچھ جائیں گے کئی لوگ دلبرداشتہ ہو کر سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے۔سوال تو اٹھیں گے کہ کیا ہے سارا تبدیلی کا ڈرامہ صرف یہی کچھ کرنے کیلئے کیا تھا یا جن پر انکے رہنما نے اندھا دھند بھروسہ کیا ہوا تھا وہ اس کی آستین کے سانپ بنے بیٹھے تھے لیکن پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس انسان کو ستر سالہ تجربات کے بعد بھی بھلے اور برے کی پہچان نہیں تو کیا اس کے حوالے اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی ملک کی باگ ڈور حوالے کی جاسکتی ہے جس نے اتنی دنیا دیکھی ہو اسے جنات پالنے والی گھریلو عورت نے تگنی کا ناچ نچایا ہو تو ایسا شخص بائیس کروڑ عوام کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے قابل کیسے ہوسکتا ہے۔اس کے بعد سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسی نے بھی اس شخص کو بھانپنے میں اس قدر غلطی کیسے کی کہ اسے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانان عالم کی رہنمائی کی ذمہ داری کے اہل قرار دے دیا۔پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے دو بڑی سیاسی جماعتوں کو پہلے سے میڈیا ٹرائل کے ذریعے بدعنوان ترین سیاسی قوتوں کا نام دے دیا گیا۔عالمی سطح پر پاکستانی عدلیہ دنیا کی پانچ بدترین عدلیہ میں شامل کی جاچکی ہے۔افواج پاکستان کی ساکھ کچھ تو پہلے سے ہی بنگال اور بلوچستان پر ملٹری ایکشن کی وجہ سے مجروح تھی رہی سہی کثر انہیں کے لاڈلے عمران خان نے نیوٹرل اور جانور کے تضحیک آمیز خطابات دیکر شدید نقصان پہنچا دیا ملک اتحاد کے ساتھ ساتھ فوج میں ڈسپلن کو انہیں تقسیم کرکے تباہ کرنے کی معنی کی ہے۔
٭٭٭٭