مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
ایک زمانہ تھا، مسلمان، مسلمان بن کر جی رہے تھے، نہ لالچ دنیا کا نہ اقتدار کا، نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے بڑے سورما اور جی دار مسلمان کے سامنے ڈھیر ہو جاتے تھے۔ مصلحت سے دور خالصتاً بوجہ اللہ زندگی گزارنا کونسا آسان کام ہے، مگر اس وقت مسلمان اس نعمت سے مستفید ہو رہے تھے، مشکل تو اب بھی نہیں، صرف اتنا فیصلہ کرنا ہے کہ مسلمان کو اپنے اقتدار اور مال و دولت کیلئے اپنے دین کا سودا نہیں کرنا کلمہ اب بھی وہی ہے، نبی اب بھی وہی ہے، اللہ اب بھی وہی ہے، صبح و شام آج بھی ویسے ہی ہیں، صرف ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اپنی ترجیح بدل دو منزل اب بھی دور نہیں ہے۔ یروشلم کے بادشاہ کے بھائی ریجی نالڈ نے حاجیوں کے ایک قافلے کو حملہ کر کے گھیر لیا۔ ان بے بس حاجیوں نے دہائی دی ہم مختلف علاقوں سے حج کیلئے آئے ہیں ہم لوگ نہتے ہیں، ہم صرف حاجی ہیں، ریجی نالڈنے انسانیت و شرافت کی تمام سرحدیں روند کر حاجیوں سے کہا، اپنے نبیﷺ سے کہو وہ تمہیں رہائی دلائیں، یہ فقرہ جب سلطان صلاح الدین نے سنا تو تڑپ کر رہ گیا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے فیصلہ کیا کہ اب جب بھی تم میرے قبضے میں آﺅ گے تو میں تمہیں خود اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا، ابھی نبیﷺ کے غلام زندہ ہیں، پہلے ہم سے نپٹ لو، پھر نبیﷺتک پہنچنا، ریجی نالڈ کی شرارتیں یہاں تک بڑھیں کہ اعلان کر دیاکہ کعبہ مشرفہ بھی گرا دوں گا اور روضہ¿ رسولﷺ بھی گرا دوں گا، اب سلطان صلاح الدین طوفان بن کر اُٹھا، راستے کے تمام پتھر ہٹاتے ہوئے یروشلم کے سر پر پہنچ گیااور کہا اگر ریجی نالڈ مجھے مل گیا اس نے میرے نبیﷺ اور مقدس شہروں کی توہین کی ہے میں ریجی نالڈ کو اپنے ہاتھوں سے دو مرتبہ قتل کروں گا،اللہ کی شان دیکھئے۔ یروشلم دینا پڑا۔ یروشلم کا بادشاہ گائی اور ریجی نالڈ گرفتار ہو گئے ساری شان و شوکت جاتی رہی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنا خیمہ میدان جنگ کے سینٹر میں قائم کیا، عیسائی شرفاءاور علمائ، قیدیوں کو طلب کیا یروشلم کا بادشاہ گائی اور اس کا بھائی ریجی نالڈ بھی لایا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کے بادشاہ کو اپنے پہلو میں عزت سے بٹھایا اور ریجی نالڈ جب سے خیمے میں داخل ہوا تھا، کھڑا تھا، سلطان صلاح الدین اٹھا، اور قریب گیا تلوار نکالی اور کہا یہ پہلی تلوار اس لئے ہے کہ تم نے میرے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور دوسری تلوار مار کر کہا کہ یہ میرے نبیﷺ کے شہروں مکہ اور مدینہ کی توہین کی سزا ہے۔ یروشلم کا بادشاہ کانپنے لگا ،سلطان واپس مڑا، اور کہا بادشاہ بادشاہوں کو قتل نہیں کیا کرتے یہ شاہی دستور نہیں ہے۔ تمہارے بھائی کو سزا دینا اس لئے ضروری تھا کہ اس نے میرے نبی اور نبیﷺ کے شہروں کی توہین کی تھی، سبحان اللہ کیا لوگ تھے اب ہم لوگوں کی باری ہے اپنے اقتدار کوطول دینے کیلئے ہم مکہ، مدینہ دینے کی سوچ رہے ہیں۔ واقعی جنہوں نے خلافت عثمانیہ ختم کی تھی سوچ سمجھ کر کی تھی، کمزور ہی سہی مگر ایک آواز پر مسلمان اکٹھے ہو جاتے تھے، لانے والوں نے جان بوجھ کر بدوﺅں کو حکومت دی تھی تاکہ واپس لینے میں آسانی رہے۔
٭٭٭