مفتی عبدالرحمن قمر
آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خبروں کے چینل کےساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ چینل بھی چل رہے ہیں، ان چینلز میں لڑکے اور لڑکی کو چوری چھپے محبت کروائی جاتی ہے جس سے دونوں بچوں کے ماں باپ بے خبر ہوتے ہیں لڑکے اور لڑکی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ چوری چھپے محبت ایک پاکیزہ محبت ہے لیکن جیسے ہی اس پاکیزہ محبت کے کرداروں کے ماں باپ کو پتہ چلتا ہے تو ان کی مسلمانی جاگ اُٹھتی ہے تو پابندی لگا دی جاتی ہے اور پھر محبت کے ماروں کوماں باپ کے سامنے کھڑا کر کے ان کو دقیانوسی خیالات کا طعنہ دیکر رد کروایا جاتا ہے اگر ماں باپ کچھ زیادہ ہی دقیانوسی واقع ہوںتو بھاگ کر کوٹ میرج کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے گزر گئی ہے مگر مجھے تو اس پاکیزہ محبت کا ثبوت کہیں نہیں ملا۔ البتہ مثنوی مولانا روم میں ایک خوبصورت حکایت ضرور مل گئی ہے جس سے اس ناپاک محبت کا پول ضرور کُھل جاتا ہے ویسے بھی مولانا روم بابا سعدی جیسے لوگ ہماری کردار سازی کیلئے کافی مواد اپنی کتابوں میں چھوڑ گئے ہیں۔ مگر ہم اس سے کما حقہ¿ فائدہ نہ اٹھا سکے ،مولانا روم فرماتے ہیں۔ ایک آدمی جو خاصا متمول تھا یعنی امیر آدمی ایک راہ جاتی غریب لڑکی پر عاشق ہو گیا۔ لڑکی نے اپنے والد کو شکایت کی اور بتایا کہ کس طرح ایک امیر آدمی نے عشق کا اظہار فرمایا ہے جس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی ہے، غریب آدمی نے امیر آدمی کو پیغام بھیجا کہ آپ فلاں تاریخ کو تشریف لائیں اور اپنی محبوبہ کو لے جائیں۔ امیر آدمی بڑا خوش کہ مجھے میری محبت اس تاریخ کو مل جائےگی۔ غریب آدمی نے اپنی بیٹی کو دست آور دوا دینی شروع کر دی جو نکلتا وہ ایک مٹکے میں جمع کرتا رہا۔ مطلوبہ تاریخ کو امیر آدمی سج دھج کر اپنی محبت کو لینے آیا تو پیچس سے ماری ہوئی لڑکی پیلا بہار رنگ، دبلا پتلا وجود، امیر آدمی نے کہا یہ وہ تو نہیں وہ تو حسن و جمال کی شہزادی تھی۔ غریب آدمی نے کہا جناب لڑکی تو وہی ہے اس کا حسن و جمال میں ابھی پیش کرتا ہوں۔ اندر سے غلاظت سے بھرا مٹکا اٹھا لایا۔ ڈھکن کھلتے ہی بدبو نے امیر آدمی کا سر چکرا دیا۔ اُٹھ کر بھاگا غریب آدمی نے پکار کر کہا صاحب اپنی محبوبہ تو لیتے جاﺅ۔ سو آپ بھی ایک تجربہ کر کے دیکھیں کہ کس قدر پاکیزہ محبت ہے حیرت تو ارباب اختیار پر ہے جن کے کان کےساتھ ساتھ آنکھیں بھی بند ہیں۔ ان کو کچھ نظر نہیں آرہا کہ غیر کس طرح اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
٭٭٭