پاکستان کے سیاسی حلقوں میں آج کل دو موضوعات شدت سے عنوان گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیاں اور پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کا نفاذ، یہ سوچ وفاق کی اکائیوں کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوگی خصوصی طور پر چھوٹے صوبے کبھی بھی اپنے حقوق اور نمائندگی پر ڈاکہ برداشت نہیں کرینگے جس کا برملا اظہار پارلیمان میں ہونےوالی تقاریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ان تقاریر میں قابل ذکر دو تقاریر ہیں پہلی سینیٹر رضا ربانی سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلزپارٹی کے نظریاتی رکن جنہوں نے حکمرانوں کو متنبہ کیا کہ اٹھارہویں ترمیم کی تشکیل کے ذریعے پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں جو انتہاءپسند قوم پرست عناصر ملک سے بغاوت کے راستے پر چل نکلنے کی سوچ رکھتے تھے انہیں ساتھ بٹھا کر راضی کیا گیا ہے اگر اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو پھر ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے انہوں نے بلوچ قوم پرستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ دوبارہ پہاڑوں کا رخ کریں، سینیٹر رضا ربانی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ قائداعظم کا پاکستان بنانے کا مقصد ایک فلاحی جمہوری آزاد مملکت بنانا تھا لیکن افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد اس ملک کو ایک سیکیورٹی اور گیریزن اسٹیٹ بنانے کی سازش نے جنم لیا اور اشرافیہ کی شراکت سے وفاق نے اس ملک کے وسائل پر قبضہ کرنا شروع کیا اور اب اس اشرافیہ کےساتھ بین الاقوامی سامراجی ادارے IMF کو بھی اس سازش میں شراکت داری حاصل ہو گئی ہے سینیٹر رضا ربانی نے یاد دلایا کہ مشرقی پاکستان کو ہم نے گنوایا کیونکہ بنگالیوں نے محسوس کیا کہ ان کا حق مارا گیا ،اس کے بعد چھ نکات پیش ہوئے اب بھی اگر چھوٹے صوبوں کے حق پر ڈاکہ مارا گیا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ چُپ رہ کر ہر ظلم برداشت کرینگے اب مزید یہ وفاق کوئی بوجھ برداشت کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا۔ آئین کے تحت موجود فورم کونسل آف کامن انٹریسٹ کی میٹنگ بلانی چاہئے تھی جس کا اجلاس اٹھارہویں ترمیم کے تحت نوے دنوں میں کم از کم ایک مرتبہ ہونا ضروری تھا جس میں تمام صوبوں کے وزراءاعلیٰ اور تمام اہم وزارتوں کے وفاقی وزراءشامل ہونے تھے یہ اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہوتا ہے لیکن وفاق نے اس کے بجائے نیشنل کمانڈ اینڈ اتھارٹی کا اجلاس بلانے کو فوقیت دی جس میں وفاقی وزراءاور فوجی سربراہان نے شرکت کی۔
این ایف سی ایوارڈ جیسے اہم فورم کو نظر انداز کر کے سی سی آئی کاﺅنسل آف کامن ا نٹریسٹ کا اجلاس نہ بلا کر اپنے چھوٹے صوبوں کا کیا پیغام پہنچایا ہے اٹھارہویں ترمیم کے تحت 17/18 وزارتوں کو صوبوں کو دے دی گئیں تھیں لیکن وفاق نے اٹھارہویں ترمیم کی منافی دوبارہ اپنی وزارتوں کو توسیع دی۔ صوبوں کو دی گئی وزارتوں کو تنظیم اور فنڈنگ کی سہولت نہیں دی گئی سینیٹ میں ہونےوالی دوسری تقریر پختونخواہ ملی پارٹی سے منتخب ہونے والے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کی، سینیٹر کاکڑ مسلم باغ قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا کہ اٹھارہویں ترمیم پر معاملات طے کرنے کیلئے چھ ماہ سے ایک سال تک تگ و دو کی اور اس ترمیم کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو ایک تسلی تھی کہ ان کے مطالبات کو کسی حد تک وفاق نے محسوس کیا ہے لیکن اب پھر صدارتی نظام کی بات کی جا رہی ہے کان کھول کر سن لیں کہ ہمیں چھوٹے صوبوں کو) صدارتی نظام ہر گز ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ ہم اس ملک میں غلاموں کی طرح زندگی نہیں گزرنی ہم نے انگریزوں کی غلامی بھی قبول نہیں کی تو اور کسی کی غلامی قبول نہیں جس کے اشاروں پر صدارتی نظام لانے کی بات کر رہے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ وہیں اٹھارہویں ترمیم کو بھی لپیٹنے کی کوشش میں ہیں سینیٹ چیئرمین کو مخاطب کر کے انہوں نے سینیٹر کاکڑ نے کہا کہ جناب چیئرمین ہمیں یعنی سندھ، پختونخواہ اور بلوچستان کے لوگوں کو یہ دونوں تجویزیں ہر گز قبول نہیں، ہم بنگالیوں سے کمزور لوگ نہیں ہیں۔ سینیٹر کاکڑ نے ببانگ دہل کہا کہ متحدہ کے لوگ ضیاءاور مشرف کی باقیات ہیں انہوں نے ہمیشہ آمریت کا ساتھ دیا ہے پاکستان بائیس کروڑ عوام کا ہے کسی اسٹیبلشمنٹ کا نہیں ہے اگر اٹھارہویں ترمیم کو ختم کیا گیا تو ہم آئین کو نہیں مانیں گے ہم نے چوڑیاں نہیں پہنیں!
دراصل یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے ایجنسی کے ہاتھوں نوجوانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے معاشی طور پر چھوٹے صوبوں کو ان کے اپنے وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے موجودہ حکومت نے ایک آمرانہ انداز اپنایا ہوا ہے نا اہل اور بد عنوان لوٹوں سے کابینہ بھری ہوئی ہے جس سے قوم کی تقدیر کو سنوارنے کا ارادہ کیا ہے جن لوٹوں نے پچھلی حکومتوں کو کامیاب نہیں کیا وہ اس حکومت کو کہاں سے کامیاب کرینگے ،اوپر سے عمران خان کے دماغ میں صدارتی نظام کا خیال ڈال دیا گیا ہے وہ کیا سمجھتے ہیں صدارتی نظام ان کےلئے ہوگا ہر گز نہیں آگے چل کر انہیں بھی دھوکہ دیکر کوئی جنرل صدر بن جائےگا لیکن اگر ایسا ہوا تو ملک کیلئے قدم خطرناک ہوگا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭