ماجد جرال۔
2010 یا 2011 کی بات ہے، اس وقت کے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے ہم سپریم کورٹ رپورٹرز کو اپنے گھر میں کھانے پر مدعو کیا، بابر اعوان اور پیپلز پارٹی کے جیالے اور صدر آصف علی زرداری کے خاص لوگوں میں شامل تھے۔ بطور رپورٹر میں ایک بات کا خاص خیال رکھتا تھا کہ کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ سے کتنا بھی قریبی تعلق بن گیا ہو، دیگر لوگوں کے سامنے اسے عیاں نہیں کرتا تھا اور نہ ہی بہت سے لوگوں کے درمیان ملاقات میں یہ تاثر دیتا کہ میرا ان سے کتنا قریبی تعلق ہے۔ میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اپنے ذریعہ خبر (Source) کو محفوظ رکھنا ہوتا تھا۔۔۔۔
دعوت ختم ہونے کے بعد بات چیت کے دور میں بابر اعوان نے بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس دن میں نے وزارت قانون کا چارج سنبھالا اسی دن تمام افسران کو اکٹھا کر کے کہا کہ اگر کوئی کام نہ کرنے کے حوالے سے آپ کے پاس ایک سو کتابیں ہیں تو وہی کام کرنے کے لئے میرے پاس دو سو کتابیں ہیں۔ یہ بابر اعوان کا عمومی رویہ بیوروکریٹس کے بارے میں تھا جبکہ بعد میں ہم نے دیکھا کہ نہ صرف وزارت قانون ہاتھ سے گئی بلکہ بھٹو ریفرنس میں سماعت کے بعد عدالت کے باہر “نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا” شعر پڑھنے پر اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ہاتھوں اپنی وکالت کا لائسنس معطل کروا بیٹھے۔۔۔۔بابراعوان پردے کے پیچھے آج پھر عمران خان کے بڑے خاص لوگوں میں شامل ہیں، یہ ان لوگوں میں شامل ہے جو وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ حکومت کیسے چلانی ہے اور بیوروکریسی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔بیوروکریسی پاکستان میں وہ گھوڑا ہے جو حکومت کو کسی وقت بھی اڑا کر کہیں سے کہیں لے کر جا سکتا ہے اور کسی وقت بھی بری طرح گرا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک بیوروکریسی پاکستان کے نظام کو چلانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم جزو ہے۔اسٹیبلشمنٹ سے مراد چند طاقتور فوجی جرنیل لیے جاتے ہیں، انہیں سیاستدانوں کے خلاف کرپشن اور دیگر الزامات کا ایندھن یہی بیوروکریسی فراہم کرتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو اپنے قیام کے فوری بعد جو سب سے زیادہ دھمکی آمیز رویے کا شکار ہوا وہ طبقہ بیوروکریسی تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد ایک خصوصی تقریب میں تمام اعلیٰ افسران جن کا تعلق بیوروکریسی سے تھا، انہیں واضح الفاظ میں پیغام دیا کہ انہیں حکومت کی مکمل تابعداری کرنا ہوگی۔ چند روز قبل حکومت کی جانب سے ایک اور اعلان کیا گیا کہ جو بیوروکریسی کے افسران کرپشن یا کسی بھی بدعنوانی میں ملوث ہوں گے ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے تبادلہ نہیں بلکہ ملازمت سے برخاست کیا جائے گا۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان کے بیوروکریسی سے پہلے خطاب سے لے کر اب تک اعلان کو دیکھا جائے تو حکومت کے لئے مسائل در مسائل پیدا ہوئے۔ بیوروکریسی میں شامل ہمارے چند دوستوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے کئی کام بیوروکریسی کی محتاط پالیسیوں کے تحت تعطل کا شکار ہوئے۔ غرض کے بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے کے عزائم حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کے وہ اہم وزراءجو کچن کیبینٹ کا حصہ ہیں، بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ان کی پالیسی آج تک کچھ زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ کبھی سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن آکر کچھ کہہ جاتے ہیں تو کبھی کسی اور بیوروکریٹ کا گلا کچھ اگلنے لگتا ہے۔ حکومت اگر بیوروکریسی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو اس کا واحد حل بیوروکریسی ہی ہے۔ بیوروکریسی کو بیوروکریسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی پر سابقہ حکومتوں نے عمل کیا، جس کے باعث ان کی حکومتیں تو جاتی رہیں لیکن کارکردگی کی ٹوکری میں کچھ نہ کچھ پڑتا رہا۔۔
٭٭٭