ٹرمپ کی میں نہ مانوں کی رٹ!!!

0
146
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

انتخابات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی جانب سے دھاندلی کے بے جا شور اور جھوٹ نے امریکہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے یہاں تک کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مختلف مقدمات مسترد کیے جانے اور بعض ریاستوں میں ایک نہیں تین تین مرتبہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد بھی انتخابی نتائج تبدیل نہیں ہوسکے اور الیکشن کمیشن حکام نے بائیڈن کو ہی فاتح قرار دیا ہے اس کے باوجود ٹرمپ اور ان کے حامی دھاندلی کا شور مچانے میں مصروف ہیں یہاں تک تھینکس گیونگ بھی انہیں الزامات کی نذر ہوگیا اور اب کرسمس کی آمد آمد ہے لیکن ٹرمپ اور اس کے حمایتی اب بھی دھاندلی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، حیران کن بات یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے پاس انتخابات میں دھاندلی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور اس کے باوجود وہ ووٹنگ مشینوں کی ہیکنگ ، بیلٹ باکس کے تبدیل کیے جانے سمیت دیگر الزامات عائد کررہے ہیں ۔ٹرمپ 28سالوں میں پہلے صدر ہیں جو دوبارہ منتخب نہیں ہوئے، امریکہ کی 231سالہ تاریخ میں ٹرمپ 11ویں صدر جو دوسری دفعہ صدر نہ بن سکے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جوبائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں کمزور صدارتی امیدوار تھے، یہ بالکل ایسے ہی جیسے پچھلے انتخابات میں ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن مضبوط امیدوار تھیں مگر وہ ہارگئیں۔اس بار ٹرمپ مضبوط صدارتی امیدوار ہو کر بھی ہار گئے، ٹرمپ کیوں ہارے، بڑی وجوہات میں ناکام کورونا ہینڈلنگ، متنازعہ امیگریشن پالیسی اور نسل پرستی، ان وجوہات کو ٹرمپ کے جھوٹوں، یوٹرنوں اور بےجا لڑائیوں کا جب تڑکہ لگا تو جوبائیڈن جیسا کمزور امیدوار بھی جیت گیا۔بلاشبہ یہ ٹرمپ بمقابلہ جوبائیڈن مطلب ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے درمیان مقابلہ تھا مگر اس الیکشن میں بہت سارے ووٹ ٹرمپ حمایت اور ٹرمپ مخالفت میں پڑے، یعنی ووٹروں کی بڑی تعداد ٹرمپ محبت اور ٹرمپ نفرت میں ووٹ ڈالنے آئی، امریکہ میں یہ گزرے 50سالوں میں پہلی بار ہوا۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جوبائیڈن کو شہروں سے زیادہ ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ کو دیہات سے زیادہ ووٹ ملے لیکن دیہات کی زیادہ تر خواتین نے جوبائیڈن کو ووٹ دیا، جب دیہاتی خواتین سے ٹرمپ کو ووٹ نہ دینے سے متعلق پوچھا گیا تو 95فیصد خواتین کا جواب تھا، ہم اس لئے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دے رہیں کیونکہ ٹرمپ بدتمیز، خود کو ”ماچومین“ سمجھتا اور ناقابلِ بھروسہ ہے۔ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے انتخابی دھاندلی کے متعلق بہت سے جھوٹے ہتھکنڈے اختیار کیے لیکن عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور سب کو منہ کی کھانا پڑی یہاں تک کہ ٹرمپ انتظامیہ نے کئی عدالتوں سے اپنے دھاندلی کیس واپس لے لیے ۔گزشتہ انتخابات میں روس کی حمایت اور کورونا وائرس کی روک تھام میں ناکامی ٹرمپ کے حامیوں کے لیے ان کی شکست کی بہت بڑی مثال ہے۔ٹرمپ کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کوئی قابل قدر کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں بلکہ ان کے صدارتی آفس میں گزارے گئے گزشتہ دنوں کے دوران ان کی توجہ ملکی مسائل اور کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کو کم کرنے کی بجائے زیادہ پیسے بنانے کی طرف مرکوز رہی ہے اور یہ ایسا کرنے والے امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں ، حیرت کی بات یہ ہے کہ ری پبلیکن کی بڑی تعداد اب بھی ٹرمپ کو ہی فاتح تسلیم کرنے پر بضد ہے ، ری پبلیکن کے دھاندلی کے متعلق ہر دعوے کی تحقیقات کے بعد بھی ہمیں ابھی تک دھاندلی کا شور سننے کو مل رہا ہے ، ری پبلیکن کی اکثریت ٹرمپ کی فتح تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، کانگریس میں 90فیصد سے زائد ری پبلیکنز یہ کہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں کہ انتخابات میںکونسا امیدوار جیتا ہے ، ٹرمپ نے صدر کی بجائے ایک ڈکٹیتر کے طور پر ملکی معاملات کو چلایا ہے اور بہت سے مواقعوں پر انھوں نے صرف اپنی مرضی کرتے ہوئے تمام ملکی اداروں کو نظر انداز کر دیا جس میں شمالی کوریا ، ایران ، افغان امن مذاکرات سرفہرست ہیں ۔ٹرمپ کی انا کی سیاست نے امریکی روایات کو تباہ کر کے رکھ دیا ،ہم پرُ امید ہیں کہ بائیڈن امریکی سیاست میں پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here