کامل احمر
آج کے کالم میں ہم امریکی سیاست کے علاوہ پاکستانی مشرق وسطیٰ اور اسرائیل سے متعلق باتیں کرینگے۔سب سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ امریکہ جو سب سے زیادہ ترفی یافتہ ملک کہلاتا ہے اور واحد ملک ہے مغرب میں انڈسٹریل ممالک میں جہاں صحت کی سہولتیں میسر نہیں، دوسرے معنوں میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کا نظام نہیں اور نہ ہی ہوگا کہ یہ سب سے بڑا بزنس ہے جس میں شریک بڑی بڑی کارپوریشنز ہیںجن میں دوائیں بنانے والی کمپنیاں ہسپتال، دوا بیچنے والی کمپنیاں، ڈاکٹرز اور انکی لابیاں شامل ہیں۔حالیہ وائرس COVID-19 میں اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے کہ کس طرح بعض ریاستوں میں نرسنگ ہوم اور ہسپتالوں میں لوگوں کو مرنے کے لئے ڈالا گیا تھا بالخصوص نیویارک ریاست میں جس کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے اورCOVID-19 سے35ہزار سے زیادہ لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔حالیہ اعداد نہیں مل سکے ہیں اور اب جب کہCOVID-19کی دوسری لہر جس کی پیش گوئی کی گئی تھی کہ پہلے سے زیادہ موذی ہوگی۔اب تک کے اعدادو شمار کرنے کے بعد282,375اموات ہوچکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق دسمبر کے آخر تک یہ تعداد تین سو ہزار یعنی3لاکھ تک پہنچے گی۔یہ کہنا کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا اب فضول ہے سوائے اس کے کہ بہت دیر کی مہربان آتے آتے یہ مسئلہ بھی سیاست کا شکار ہوگیا لیکن ایک بات اچھی ہوئی کہ فائزر اور میڈونا(دونوں نیویارک کی)نے بیک وقت اعلان کیا کہ ویکسین تیار ہے۔پہلے میڈونا نے اعلان کیا کہ95فیصد کامیاب ہے جب کہ فائیزر (PFIZER) نے 92.3 کا دعویٰ کیا تھا۔ میڈونا (MADONA) کے اعلان کے بعد ہی شاید کمپنی کو شرم آئی اور کہا انکی ویکسین95فیصد کامیاب ہے اور اب تک یہ ویکسین جو فائیزر نے بنائی ہے کئی ریاستوں کو حفاظتی طریقہ سے ہوائی جہاز کے ذریعے ریاستوں کے اسٹوریج میں پہنچ چکی ہے اور وہاں سے ہسپتالوں میں منتقل ہوگی انکی ضرورت کے تحت اور سب سے پہلے اس کا استعمال ڈاکٹروں، نرسوں اور ہسپتال کے فرنٹ عملے پر ہوگا۔یہ وبا پھیلنے کی ذمہ داری جتنی حکومت کی غفلت ہے اس سے زیادہ عوام کی ہٹ دھرمی اور غفلت کے علاوہ ضد ہے کہ گورنرز کے حکم کے باوجود پارٹی بازی اور ساحل سمندر اجتماعات جاری رہے ،یہ امریکہ ہے جہاں لوگوں کو علیحدہ رہنے کی بھی سہولت ہے اور پڑھے لکھے ہیں تو پاکستان کے عوام کو کیوں مورد الزام ٹھہرائیںجہاں کی22کروڑ کی آبادی میں جاں بحق ہونے والوں کا تناسب دنیا کے کئی ملکوں(امریکہ سمیت)بہت ہی کم ہے اسکی ایک وجہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والوں کا مرض کے خلاف دفاعی نظام بہت مضبوط ہے مقابلتاً مغربی ممالک کے جہاں آب وہوا،پانی اور غذائیں نہیں اور آلودگی کم ہے۔2020کا سال تاریخ میں ایک منحوس سال سے یاد کیا جائے گا جس نے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہر شعبہ کو اپنا شکار بنایا۔معیشت تباہی کے راستے پر آگئی، چھوٹے سے چھوٹا بزنس اس کا شکار ہوا، بہت سے یورپین ممالک جن کا انحصار30فیصد سے زیادہ سیاحت پر تھا کہ عوام غربت کی لیکر سے بہت نیچے چلے گئے جس میں سپین، ترکی، مراکو(مراقش)مصر، میکسیکو، انڈیا بھی شامل ہے۔اپنے گھروں میں مقید ہو کر چولہے نہ جلا سکے۔امید کی جاتی ہے سال2021اچھی خبر لے کر آئے گااگر کسی ملک پر اس کا معاشی دباﺅ نہ ہوا تو وہ سعودیہ اور مڈل ایسٹ تھے اور ایسے بھی جو اسرائیل کو خوش کرنے میں لگے رہے فلسطینیوں کو بھول کر ان سے تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کیے ،حال ہی میں امارات نے اسرائیل کی فٹ بال ٹیم کے شیئر خرید کر خود کو اسرائیلی ٹیم بتیار کا مالک بھی بنا لیا ہے اسرائیل امارات اور اسرائیل کے اس معاہدے کا جشن میوزک فیسٹیول کے ذریعے منایا گیا اور بڑے بینر پر لکھا گیا تھا ۔سلام۔PEACE- “لیکن سعودیہ حکومت کے ایک وزیر نے اچھا بیان دیا ہے۔فلسطین کی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے دیکھیں کیا ہوتا ہے ادھر ایران میں ابھی تک انکے سائنسدان محسن فخری زادہ کے مشین گن سے قتل ہونے پر سوگ منایا جارہا ہے۔سب کا خیال ہے یہ کام اسرائیل نے کیا ہے اس سے پہلے وہ ایران کے جنرل کو مارنے کا دعویٰ کر چکا ہے اور کئی سازشوں میں شریک رہا ہے۔جس میں عراق کا نیوکلیئر پلانٹ بھی شامل ہے تباہ کرنے میں اسرائیل نے ایسےOPERATION BABYLONکا نام دیا تھا یہ ری ایکڑ عراق میں بنایا جارہا تھا۔آئندہ اسرائیل کے ارادے کیا ہیں وہ اندر کے لوگ جانتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں آئندہ دو تین سالوں میں کیا ہوگا باجوہ صاحب ہی جانتے ہیں جس ڈگر پر ملک کو چلایا جارہا ہے اس میں عمران خان کے سامنے رکاوٹ ہی رکاوٹ پر آنے والے دن میں پیدا کی جارہی ہے کہ کچھ ڈومینوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے ان میں پیش پیش مریم نواز ہے انکے اس اعلان سے کہ13دسمبر کو آر پار ہوگا،عمران کا کہنا درست ہے ناجائز طریقوں سے پیسہ بنانے والوں کو عوام(میڈیا بھی)عزت دے رہی ہے عمران بھول رہے ہیں کہ یہ عوام بھی اتنی ہی کرپٹ ہے بھلا کنجر کو اچھے برُے کی کیا تمیز وہ کسی کوNROنہیں دینگے انکا کہنا ہے اب اگر باجوہ صاحب نے کچھ اور سوچا ہے تو عمران خان کو مایوسی ہوسکتی ہے۔فضل الرحمن کو نکیل دینے کی ضرورت ہے اور جو حافظ حمد اللہ کہتا ہے کہ ہمارے رضا کاروں نے کبھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔
امریکہ کے سیاسی اسٹیج پر دو بہت ہی اہم سینیٹ کے الیکشن5جنوری2021کو ہونے جارہے ہیںاگر دونوں سیٹیں ریپبلکن جیت گئے تو سینیٹ میں انکا حکم چلے گا اور اگر ڈیموکریٹ اور سینیٹ برابر برابر سیٹوں کے حقدار بنے تو بھی ڈیموکریٹ وائس پریذیڈنٹ کمالہ حارث کے ووٹ سے بل پاس کرا لے گی صدر ٹرمپ اپنی ناکامی کو اسی صورت سرخرو کر سکتے ہیں کہ دونوں سیٹیں ریپبلکن جیتیں جس کے لئے وہ جارجیا میں مہم چلا رہے ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
٭٭٭