”نیب اور سلیم مانڈوی والا“

0
160
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق
mukarampeer@gmail.com

جو قارئین سلیم مانڈوی والا کے نام سے آشنا نہیں انکے لئے ایک مختصر تعارف کراتا چلوں۔سکیم مانڈوی والا موجودہ سینیٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔مانڈوی والا گروہ کراچی کا ایک پرانا اور مشہور بزنس گروپ تھا جن کے گاڑیوں کے شو روم پچاس کی دہائی سے کراچی میں تھے اور اب تک موجود ہیں بعد میں اس خاندان کا کاروبار فنانس، رئیل اسٹیٹ، کسلٹنسی وغیرہ تک پھیل گیا۔61سالہ سلیم مانڈوی والا ایک پڑھے لکھے شخص ہیں۔امریکہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد1981میں واپس پاکستان لوٹے اور نوے کی دہائی میں پی پی پی میں شامل ہوکر ایک فعال کردارادا کیا۔پہلی مرتبہ سینیٹر2012ءمیں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے اور پھر انہوں نے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے کچھ وقت کیلئے پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہے۔سندھ حکومت میں بھی مشیر کے عہدے پر کام کیا۔2018ءمیں جب صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تو پیپلزپارٹی نے اپنی طرف سے نائب چیئرمین سینیٹ کیلئے سلیم مانڈوی والا کو انتخاب میں حصہ دلوایا اور سلیم مانڈوی والا سینیٹ کے104ممبران میں سے54ووٹ حاصل کرکے جیت گئے۔اس طرح بطور ڈپٹی چیئرمین کے انکے عہد کا آغاز ہوا ہر پڑھے لکھے انسان کی طرح اور کراچی سے تعلق کی بنیاد پر انہوں نے کافی معاملات پربے خوف اور خطہ باتیں بھی کیں۔کافی لوگوں اور حلقوں کی ناراضگی بھی مول لے لی۔جس کی وجہ سے متعدد حلقوں نے نیب کو انکے پیچھے لگا دیا۔نیب حسب عادت ومعمول صاحب حیثیت لوگوں کو حراساں کرتی ہے وہی کچھ کرنے کی کوشش مانڈوی والا کے ساتھ بھی کی گئی۔لیکن مانڈوی والا بھی ڈرنے والے نہ تھے انکے بھی ایوان اقتدار میں اچھی خاصی شناسائی ہے۔وہ دبے تو نہیں الٹا انہوں نے نیب کی کلاس لے لی۔پیچھلے دنوں انہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے نیب کا کچا چٹھا کھول دیا۔انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح اعلان کردیا کہ انکی سینیٹ کمیٹی نیب کے ہتھکنڈوں اور ان کے افسران کی ڈگریوں اور اثاثوں کی چھان بین کی جائیگی۔ویسے بھی نیب کے انصاف کی دھوم ملک کی سرحدوں کو پار کرکے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے۔ایک حقیقت ہے کہ نیب اور احتسابی عمل کو بڑی حد تک سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناجائز طور پر باہر لے جائی گئی دولت واپس نہیں لائی جاسکتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نیب کی ساکھ کو بڑی حد تک نقصان پہنچا ہے۔نیب کے کئی فیصلے سوالیہ بن چکے ہیں۔سیاسی دباﺅ میں آکر کئے گئے فیصلے لنگڑے لولے فیصلے ہوتے ہیں اور بین الاقوامی معیار عدل کی غمازی نہیں کرتے ہیں۔یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نیب کے تمام فیصلے غلط ہیں لیکن انصاف کا معیار اگر مشکوک ہو جائے تو صحیح فیصلوں پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نیب کہ اندر جو عملہ اور افسران ہیں انکی ایک اچھی خاصی تعداد خود بدعنوانی میں ملوث ہے اورPLeadedکے نام پر پلی بارگیں کرنے والے بدعنوان عناصر سے پہلے معاملہ کیا جاتا را ہے کہ کہتی رقم حکومتی خزانے میں جائیگی اور کتنی رقم افسران کی جیبوں میں!سلیم مانڈوی والا نے پلی بارگین کے تصور کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اگر کوئی چور چوری کرے تو اس کا بیس20%یا25%رقم واپس لے کر چور کو آزاد کردیں تو یہ سراسر زیادتی ہے۔
اس سے تو چوری کے عمل کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔کیونکہ پلی بارگین کے نتیجہ میں چور تو پھر بھی فائدے میں رہتا ہے اور خسارہ سرکاری خزانے کو ہوتا ہے۔یہ عمل ہی انصاف کے منافی ہے اسکے علاوہ جو ایک بڑی بات ہے جس کے ذکر سے ہر کوئی گھبراتا ہے وہ ہے نیب میں فوجی افسران کی واضع برتری اس حد تک ہے کہ فیصلے بھی اپنی مرضی ومنشا سے رکھوائے جاتے ہیں۔اگر کوئی انصاف پسند صحیح غلطی سے نیب میں جج مقرر ہو بھی جائے اور کرنل یا بریگیڈئر صاحب کا اثر اپنے فیصلوں پر قبول کرنے سے انکار کردے تو باوجود نیب آرڈیننس کی متعلقہ مشق جس میں واضح طور پر موجود قانون کہ کسی جج کافی مدت ملازمت کے ختم ہونے سے پہلے کسی کا تبادلہ نہیں ہوسکتا یعنی نیب سے باہر نہیں بھیجا جاسکتا ماسوائے اس کے کہ وہ ذہنی وجسمانی طور پر اپنا کام انجام دینے کے قابل نہ رہے یا بدعنوانی کا الزام اس پر ثابت نہ ہوجائے لیکن پھر بھی کئی ججوں کو مدت مکمل ہونے سے پہلے فارغ کیا جاتا رہا ہے جب تک احتسابی عمل کو فوجی یا سیاسی مداخلت سے دور نہیں کیا جائیگا۔نیب اور احتسابی عمل عالمی نظر میں سیاسی انتقام کا ایک آلہ ہی رہے گا،حکومت مخالف عناصر کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال ہونے والا!!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here