کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن
کسی بھی ملک کی تعمیر ترقی میں ملکی وسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک سے تجارت اور امپورٹ ایکسپورٹ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔آج کی دنیا میں جہاں کاغذ قلم کی جگہ لیپ ٹاپ یعنی کمپیوٹر نے لے لی دنیا کے بیشتر ممالک میں دفاتر، تعلیمی ادارے اور دیگر امور تمام کے نام ای میلز ٹیوٹر اور انسٹاگرام کے ہو رہے ہیں۔ایک دوسرے ممالک کی خبریں سیکنڈزمیں پہنچ جاتی ہیں امریکہ میں ہر سال حکومتی سطح پر 65 ہزار ورکر ویزوں کے ذریعے دنیا بھر سے پڑھے لکھے آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو امریکہ میں ایک خاص مدت کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیںاور یہ سلسلہ کئی عشروں میں جاری رہا ریسرچ سینٹر تھنک ٹینکس اور این جی اوز قائم میں جن کو پالیسی ساز ادارے خاص حیثیت رکھتے ہیں اور ہر شعبہ زندگی اور حکومتی امور، سیاسی امور ،سائنسی امور ،تعلیمی امور ،خارجہ پالیسی کے امور، داخلہ پالیسی کے امورپر مختلف پالیسی ساز ادارے قائم ہیں جو تحقیق اور ڈائیلاگ کے ذریعے جو تجاویز کانگریس اور سینٹ پر بھیجے جس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کا موخر، کامیاب حکومتی اور معاشرتی نظام چل رہا ہے۔آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی اور ماڈرن تعلیم کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔آئی ٹی کے شعبے کی اہمیت کے پیش نظر امریکہ میں بیرونی ممالک سے جو آئے ہیں ان کو امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ان ورکروں میں سب سے زیادہ تعداد یا انڈیا کے لوگوں کی ہوتی ہے یہی ورکر جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امریکہ آتے ہیں۔یہیں ان کو نوکری کے ذریعے امیگریشن گرین کارڈ شہریت مل جاتی ہے۔امریکہ میں ہر ملک کے سفارت خانے موجود ہیں جن کے اپنے سفارتکار ہیں ۔یہ سفارت کار نہ صرف اپنے اپنے شعبے میں ماہر ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں ان ممالک کے کامیاب کاروباری لوگوں اور کمیونٹی سے رابطے میں رہتے ہیں جس میں ان ممالک اور امریکہ کے مابین تجارت اور دیگر امور کامیابی سے طے پاجاتے ہیں لیکن پاکستان سفارت خانے واشنگٹن میں شعبہ تعلیم کا ایک وزیر ہی نہیں اور اوپر سے جو وزیر تجارت آتے ہیں وہ کوئی کمشنر ،ڈپٹی کمشنر پولیس آفیسر ہوتا ہے۔گزشتہ بیس سال سے جو بھی وزیر تجارت واشنگٹن میں آئے اور موجودہ وزیر صاحب تمام کے تمام ڈی ایم جی گروپ یعنی کمشنر ڈپٹی کمشنر یا پولیس آفیسر آئے جن کو تجارت اور آئی ٹی اور دیگر امور کا دور دور تک کو تجربہ نہیں کبھی کسی بھی وزیر تجارت نے پاکستانی امریکن بزنس کمیونٹی سے روابط قائم نہیں کئے جبکہ پاکستان سے3200آئٹمز ایسی ہیں جن پر امریکہ لانے پر کوئی کسٹم یا ڈیوٹی نہیں ہے۔ان آئٹمز میں جیولری ملبوسات ہنڈی کرافٹ اور کئی کھانے پینے اور روزمرہ میں استعمال ہونے والی اشیا شامل ہیں۔کئی سال قبل سیالکوٹ سے سرجیکل انڈسٹری کا وفد اور امریکی محکمہ کامرس کی دعوت پر دورے پر تھا پاکستان کی سرجیکل انڈسٹری دنیا کی نمبر ون مصنوعات میں چائنہ سرفہرست۔منویل سرجیکل روزانہ دنیا میں پاکستان کے علاوہ کہیں بھی دستیاب نہیں ،اس وفد نے امریکیوں کے سامنے سوالوں کے جواب دیئے اور کہا کہ سب سے زیادہ مایوسی پاکستان کے سفارت خانے میں وزیر تجارت سے ہوئی اس وقت پولیس آفیسر وزیر تجارت کی حیثیت سے واشنگٹن میں تعینات تھے۔پاکستانی وفد نے کوئی معلومات چاہی تو موصوف وزیر تجارت نے معذرت کرلی۔وہی سلسلہ آج تک جاری ہے جو وزیر تجارت واشنگٹن میں تعینات ہیں۔سب کے سب چھٹی گزارنے اور تفریح کے موڈ میں آئے، امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں خود ساختہ رہنماﺅں نے بھی کبھی اس مسئلے پر آواز نہیں اٹھائی ،خاص طور پر مسلم لیگ(ن)(ق)(پی پی)اور پی ٹی آئی کے ٹھیکیداروں نے کبھی اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔
حکومت پاکستان سے اس معاملے میں کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا کئی ایسے کاروباری پاکستانی ہیں۔چھپے چھپے اسے سفارتخانہ کے بارے میں شکایات کرتے ہیںلیکن کھل کر کبھی بھی سامنے نہیں آئے ،اس وقت پاکستان میں ایک ایماندار اور دلیر قیادت جو تبدیلی کے وعدے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی خدمت نہیں گزارش ہے۔امریکہ میں سفارت خانہ اور قونصلرز جنرلز میں تجارت تعلیم کلچر میں پیشہ ورانہ اپنے شعبے میں ماہر، وزیروں اور اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔امریکہ اس وقت دنیا میں لینڈ تھا اپرچیونٹی ہے دیگر ممالک بھرپور فائدہ اٹھا رہا لیکن پاکستان کے وزیر صرف سیر وسیاحت اور تفریح کی غرض سے بھاری بھر کم سفارش کے ذریعے تعینات ہوتے ہیںاگر وزیر تجارت اپنی پیشہ اور تجربہ کے اعتبار ہونگے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت اور شعبوں میں بہت بہتری آسکتی ہے۔اس سے نہ صرف بہتری آئے ان کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا وعدہ بھی پورا ہوگا،جب واشنگٹن میں وزیر تجارت اپنی قابلیت کے اعتبار سے درست ہوگا۔
٭٭٭