کرونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کے معمولات زندگی بدل دیئے ابھی تک رکنے کا نام ہی نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس وباء کا ابھی تک علاج ہی ممکن نہیں ہو سکا۔ دنیا کے عظیم سائنسدان ڈاکٹرز سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ تو وجہ تلاش کر سکے نہ اور نہ ہی اس کا کوئی طبی حل ہی مل سکا، لاکھوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور کروڑوں متاثر ہیں اور مزید یہ وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہی ہوئیں اور اچھی خاصی تعداد صحت یاب بھی ہوئی ویکسین ایجاد کر لی گئی امریکہ میں ایک چوتھائی آبادی کو یہ ویکسین لگا دی گئی ہے ان تمام تر حالات کے باوجود اس جان لیوا مرض سے احتیاط سے ہی بچا جا سکتا ہے۔ ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں جن میں بار بار ہاتھ دھونا، سینیٹائزر لگانا، فیس ماسک پہننا اجتماعات میں جانے سے گریز کرناشامل ہے۔ اگر ہم ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں تو کافی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں اس کے بعد اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس موذی وباء سے محفوظ رکھے۔ آمین۔کرونا وائرس بڑے بڑے قابل اور اہم انسانوں کو نگل گیا ہر انسان اہم ہے لیکن اللہ پاک نے نظام زندگی چلانے کیلئے مختلف شعبوں میں انسانوں کو ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ پاکستان ایمبیسی واشنگٹن میں اور دیگر قونصلر جنرلز میں پاکستان کے افسران اور دیگر عملہ اپنی سفارتی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کی سول سروسز کے لوگ دنیا کے کسی بھی ملک کے ڈپلومیٹس سے کم نہیں۔ ان سفارتی اہلکاروں میں پریس کے شعبے کے لوگ بھی شامل ہیں گزشتہ بیس سالوں میں واشنگٹن میں کئی پریس اتاشی تعینات ہوئے جن میں اکرم شہیدی، ندیم کیانی، عابد سعید، زوبیہ مسعود، ملیحہ جوبانہ اور ندیم ہوتیانہ شامل ہیں۔ملیحہ جوبانہ موجودہ پریس اتاشی ہیں۔ جبکہ دیگر میں کئی اہم افسران بھی یہاں پر قائم رہے تمام کے تمام نہایت پیشہ وارانہ انداز میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ ندیم ہوتیانہ ایسے ہی قابل اتاشی تھے جو سات سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جس طرح انہوں نے اپنی ذمہ داریاں انجام دیں تاریخ ساز ہیں، صحافیوں کیساتھ سفارت خانہ اور کمیونٹی کے لوگوں میں روابط کو مضبوط کیا۔ وائٹ ہائوس کیپٹل ہل امریکی دفتر خارجہ ،پالیسی ساز ادارے یعنی ہر سطح پر پاکستان کی بہترین نمائندگی کی۔ امریکی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں پاکستان کے حوالے سے خطوط لکھے اور کسی بھی خبر کے جواب میں بڑی مہارت اور ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ حسین حقانی، جلیل عباس جیلانی اورشیری رحمان کی سفارت کاری معاونت کا موقع ملا۔ نہایت نیک، قابل ،ذہین اور روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ بچوں کی تعلیم کی وجہ سے واشنگٹن میں مدت پوری ہونے کے بعد تین سال کی رخصت پر تھے۔ قانونی طور پر امریکہ میں مقیم تھے۔ پاکستان کی سول سروسز میں ان کا شمار بہترین آفیسرز میں ہوتا تھا۔ امریکہ میں اپنا ذاتی گھر ایک خواب ہوتاہے چند ماہ قبل اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے، خاندانی طور پر بہت بڑے جاگیردار گھرانے سے تعلق تھا۔ امریکہ میں اپنی تعیناتی کے دوران کمیونٹی میں میل جول اور دوستی کا لمبا حلقہ رکھتے تھے، چند روز قبل پوری فیملی کرونا کا شکار ہوئی اہلیہ اور بچے صحتیاب ہو گئے لیکن ندیم ہوتیانہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انسان کی نیکیوں اور اچھے کاموں کا اندازہ اس کی موت سے ہوتاہے، اللہ پاک نے رمضان المبارک میں جمعہ کے روز اپنے پاس بلایا، سیدھا جنت میں جگہ عطا کی، اس اعزاز سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر اچھے باپ، شوہر اور بیٹے تھے اور سب دوستوں میں کیا مقام رکھتے تھے، کیسی خوبصورت اور کامیاب زندگی گزاری اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے،آمین!تمام خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے ، ندیم ھوتیانہ باقاعدہ چھٹی لے کر قانونی طریقہ سے امریکہ میں مقیم تھے ان جیسے قابل اور پیشہ وار لوگوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے جس طرح ندیم ھوتیانہ کا تجربہ تھا ان کو حکومتی سرپرستی ملنی چاہئے تھی ۔
چھٹی کے دوران یہاں امریکہ میں کام لیا جاسکتا تھا، اگر ذرا سی بھی حکومتی سرپرستی ہو تو اس طرح کے کئی با صلاحیت اور قابل اہلکار امریکی صحافت، سیاست ،معاشرت ،خارجہ پالیسی کا تجربہ رکھنے والوں سے کام لیا جاسکتا ہے، امریکہ اتنا بڑا ملک ہے کہ پورا پاکستان بھی یہاںآجائے تو اس کی بڑی ریاست کا صرف ایک کونا بھرا جائے گا۔ ندیم ھوتیانہ ہمارے بہت اچھے دوست تھے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہی چند ٹوٹی پھوٹی گذارشات تھیں لیکن ہمیں کورونا حالات میں ہر صورت حفاظتی اقدامات پہ عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے، ویکسین لگوائیں، لگوانے کے باوجود حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، اپنے آپ کو بھی بچائیں، اپنے خاندان کو بھی بچائیں ،دوستوں اور دیگر کمیونٹی کے لوگوں کو محفوظ رہنے میں مدد دیں، اللہ پاک سے دعا ہے کہ جلد از جلد پوری دنیا سے اس وبا کا خاتمہ کرکے معمولات زندگی بحال فرمائیں۔ آمین
٭٭٭