21 جولائی کو وزیراعظم عمران خان واشنگٹن پہنچے اور آغاز ہوا نئی تاریخ کا‘ نئے کامیاب سنہری دور کا جس انداز میں عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی اس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ واشنگٹن میں سفیر کی رہائش گاہ پر رہائش اور سادہ‘ روایتی لباس کے ساتھ درست انگریزی لہجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو کی۔ ارکان سینٹ کانگریس اور امریکی سیکرٹری خارجہ سے ملاقات‘ سب سے بڑھ کر پاکستانی امریکن کمیونٹی کا عظیم الشان تاریخی استقبال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر یوں محسوس ہورہا تھا صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی شخصیت سے انتہائی متاثر ہیں۔ عمران خان نے نئے پاکستان کا اور ریاست مدینہ کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس کو اسی طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلیم کیا اور پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے‘ مدد کرنے‘ دفاع کو مضبوط بنانے‘ معیشت کو بہتر کرنے‘ کرپشن اور ناانصافی ختم کرنے میں پاکستان کی بھرپور مدد کا وعدہ کیا جس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ماضی میں پاکستانی حکمران ان سے جوٹ اور دھوکہ دہی کرتے رہے۔ عمران خان ایک سچا اور عظیم لیڈر ہے۔ میں اس پر بھرپور اعتماد کرتا ہوں۔ افغانستان میں امن اور خطے میں حالات بہتر کرنے پر پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ اس دورے میں سب سے اہم پیشرفت مسئلہ کشمیر میں امریکی ثالثی کردار تھا۔ نہتے اور معصوم کشمیریوں کا خون رنگ لایا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کی تعریف کرتے ہوئے حل کیلئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ یوں ہر سطح پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مو¿قف کو تسلیم کیا گیا۔ معاہدے اور وعدے کئے گئے۔ ان پر عملدرآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس دورے سے امریکہ پاکستان تعلقات میں ایک سنہری اور کامیاب دور کا آغاز ہوچکا ہے۔پاکستانی امریکن کمیونٹی نے بھی اپنے محبوب قائد کا اسقبال جس تاریخی انداز میں کیا وہ بھی سنہری حروف میں لکھا جارہا ہے۔ اس سے قبل پاکستانی امریکن کمیونٹی ایسا اتحاد اور یکجہتی کبھی نظر نہیں آیا۔ واشنگٹن کے کیپٹل ایرینا میں تاریخ کا یہ تیسرا بڑا اجتماع تھا اور دنیا کے چار ارب لوگوں نے اس اجتماع کو سنا اور دیکھا۔ اس کمیونٹی اجتماع کی بازگشت امریکی ایوانوں میں بھی مثبت اور کامیاب انداز میں ہوئی۔ تحریک انصاف کے ورکرز جنہوں نے بڑی محنت کی پاکستانیوں کو اجتماع کیلئے اکٹھا کرنے کی۔ ان کوششوں میں جلسے اور کارنر میٹنگز شامل ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی کے یہ لوگ ورکرز اتنی جدوجہد بھی کرتے تب بھی عمران خان کے اس استقبال کیلئے لوگوں نے آنا ہی آنا تھا۔ دورے کے بعد جس طریقے سے پی ٹی آئی واشنگٹن ایریا کے ورکرز آپس میں دست و گریبان ہیں‘ پی ٹی آئی قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور کمیونٹی میں اس اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھنے کیلئے پی ٹی آئی کے ورکرز کو روکنا ہوگا تاکہ یہ کامیاب بھرم قائم رہے۔وزیراعظم کے اس دورے میں پاکستانی سفارت خانے کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کئے بغیر ناانصافی ہوگی۔ خاص طور پر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے لوگ پریس منسٹر اور پریس اتاشی جنہوں نے دن رات کوشش کرکے اس دورے میں اہم کردار ادا کیا۔ بروقت خبریں وائٹ ہاﺅس‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ و دیگر میٹنگز میں صحافیوں کی نمائندگی قابل تحسین تھی۔ میڈیا کے اس دور میں پریس منسٹر عابد سعید اور پریس اتاشی زوبیہ مسعود نے جس پیشہ ورانہ انداز کردار ادا کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ دونوں شخصیات اپنے تین تین سال کامیابی سے پورے کر چکے ہیں۔ حکومت پاکستان اور واشنگٹن اور امریکہ صحافتی حلقے ان کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان دونوں کو نئے آفیسرز کی تقرری تک کام کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔ اس طرح ان دونوں افسران کو پاکستانی دانشور حلقے اور اس سے بڑھ کر امریکی میڈا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عمران خان کے اس تاریخی اور کامیاب دورے کے بعد پاکستانی کمیونٹی سیاسی و سماجی حلقے آئندہ کامیابی کیلئے پر امید ہیں۔
٭٭٭