آجکل پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ”بات کرنی کبھی اتنی مشکل نہ تھی جو اب ہوگئی“۔ ٹی وی چینلز‘ اخبارات اور ریڈیو چینلز میں خبریں سن کر گھٹن کا احساس بڑھ جاتا ہے حالانکہ وزیرعظم عمران خان جدید خیالات کے ہمیشہ سے حامی رہے ہیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کے چیمپئن رہے ہیں۔ اس لئے یہ بات حیرت ناک لگتی ہے کہ ان کے دور حکومت میں اتنی پابندیاں کیوں؟ حکمنامہ یہ ہے کہ جس شخص پر بدعنوانی کا الزام بھی ہے اس کا انٹرویو لینا بھی غیر قانونی ہوگیا ہے اگر کوئی ٹی وی چینل ایسے انٹرویو کو نشر کرے گا تو اس پر جرمانہ ہوگا یا چینل بند بھی ہوسکتا ہے۔ اخبار شائع کرے گی تو وہ بھی بند ہوسکتا ہے۔ آج کے دور میں اور ہمارے ملک میں انتقامی سیاسی ماحول میں الزامات تو بہت لگتے ہیں اور سزائیں بھی غلط سنائی جاتی ہیں۔ یہ حکمنامہ نہایت حیرت انگیز اور مذاق خیز ہے کیونکہ صدر پاکستان (موجودہ) اور موجودہ وزیراعظم پر بھی مقدمات ہیں جو کہ زیر سماعت ہیں تو کیا ان سے انٹرویو پر بھی پابندی ہوگی؟ ایسے حکمنامہ کوئی موٹی عقل کے افراد یا ادارے ہی جاری کرسکتے ہیں جو کہ غیر منطقی اور غیر مناسب ہیں اگر تو عمران خان منتخب وزیراعظم ہیں تو ان کی سوچ اور نظریہ ان کی طرز حکومت میں جھلکنا چاہئے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ 67 سالہ عمران خان کی سوچ دو سال پہلے کے مقابلے میں یکسر تبدیل ہوگئی ہو پا پھر وہ لوگ سچ کہتے ہیں کہ عمران خان کا چہرہ استعمال کرکے دراصل حکومت خفیہ ادارے ہی چلا رہے ہیں لیکن اگر چہرہ عمران خان کا استعمال ہورہا ہے تو نام بھی ان کا بدنام ہوگا۔ چوروں اور لٹیروں کی پکڑ دھکڑ پر سارا ملک خوش ہے اور عمرانخ ان کے ساتھ ہے لیکن قاتل کو بھی سزا دینے سے پہلے انصاف اور قانون کے سارے تقاضے پورے کرنا نہایت ضروری ہے۔ مخالفوں کی زبان بندی کے بجائے اپنا حکومتی نظام درست کرنا ضروری ہے۔ عدالتی نظام کو سدھارنا نہایت ضروری ہے تاکہ انصاف پر مبنی فیصلے ممکن ہوسکیں۔ عمران خان کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ان کے منشور کی بنیاد حصول انصاف پر مبنی ہے اگر وہ اپنے دور حکومت میں عدالتی نظام کو نچلی سطح پر بھی ٹھیک کرسکے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مجسٹریٹ‘ سول جج اور سیشن جج کی عدالتوں سے اگر بدعنوانی اور نااہلی کا ناسور ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو عام آدمی کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ تو امیروں کے چونچلے ہیں۔ 99 فیصد عام آدمی تو نچلی ماتحت عدالتوں میں ہی پھنس کے رہ جاتا ہے جو غریب آدمی ایک مرتبہ کورٹ کچہری کی دلدل میں پھنس گیا اس کی بمعہ خاندان کے زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ خدارا عوام پر احسان کریں اور ماتحت عدالتوں کے طور طریقوں میں آساین پیدا کریں اور ان عدالتوں کو پابند کریں کہ ایک مقررہ وقت سے زیادہ مقدمہ نہیں چلنا چاہئے بلکہ فیصلہ آنے چاہئیں۔ وکلاءکی فیسوں کو بھی ایک ضابطے میں رہنا چاہئے تاکہ غریب آدمی کی دادرسی اس کی پہنچ میں رہے۔ زرداریوں اور میاں صاحبان کو لٹکا دیں لیکن قانون کے تقاضوں کی تکمیل کے ذریعے انتقامی سیاست کی کوئی جھلک بھی عوام کی نظروں میں انہیں مظلوم بنانے کیلئے کافی ہوگی۔ تحریک انصاف کی حکومت کا واحد مقصد صرف ان دو بڑے چوروں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہی نہیں ہونا چاہئے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سے لے کر آسان اور سستا انصاف فراہم کرکے عام آدمی کو ریلیف دینا بڑا مقصد اور منشور ہونا ہوگا۔ بڑے چوروں کی سزا سے عام آدمی کو کوئی براہ راست فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر عدالتیں غیر جانبدارانہ فیصلے کریں اور حکومتیں ان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کریں تو پھر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ ساتھ میں عوام کو فوری ریلیف کیلئے بھی اقدامات ہوتے رہیں۔ میڈیا پر قدغن سے عوام میں شکوک بڑھیں گے۔ یہی غلطیاں فوجی حکومتوں نے کیں جس سے عوام میں اعتماد کھو دیا۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے جسے سیاسی تدبر اور جمہوری اقدار کو خاطر میں رکھ کر حکومت کرنی چاہئے۔ بقول انگریزی محاورہ: Justice Show Not Only Be Done Butt It Should Seem To Have Been Done (انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ یہ نظر آنا چاہئے کہ انصاف ہوا ہے)
٭٭٭