استاد کا مقام و مرتبہ!!!

0
223
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

استاد کا مقام و مرتبہ ہمارے پیارے نبی کے اس فرمان میں پوشیدہ ہے۔ فرمایا: میں استاد بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ نبی کا استاد صرف اور صرف اللہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا: وعلم آدم الاسماءکلھا۔ اور ہمارے پیارے نبی کے بارے میں ارشاد ہوا: الرحمن علم القرآن پھر ارشاد: وعلمک مالھم تکن تعلم۔ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا: آپ استاد کا ادب اپنے والد سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ سکندر اعظم نے کہا: سنو! میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ باعث حیات فانی ہے اور میرا استاد موجب حیات جاوداں ہے۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے جو فانی ہے اور میرا استاد میری روح کی غذا بہم پہنچاتا ہے جو باقی ہے لیکن یہ ساری باتیں عقل مندوں کیلئے اور صحت مند معاشرہ کیلئے ہیں۔ مثالیں تو جا بجا پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم دیکھنے کا تکلف ہی نہیں کرتے۔ ماضی قریب میں تصور پاکستان کے خالق اور ہمارے قومی شاعر بلکہ شاعر اسلام کا عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ جب تاج برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب عطا ہونے لگا آپ نے فرمایا: پہلے میرے استاد کو شمس العلماءکا خطاب دیں۔ گورنر بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ ہم مولوی مہر حسن کو کیوں شمس العلماءکا خطاب دیں۔ انہوں نے کون سی کتابیں لکھی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ایسا شاندار جواب دیا کہ انگریز گورنر لاجواب ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: گورنر صاحب! مولوی مہر حسن نے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن مولوی صاحب نے مصنف پیدا کئے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ خاکسار محمد اقبال ہے۔ گورنر لاجواب ہوکر کہنے لگا: ٹھیک ہے ہم دے دیتے ہیں۔ اسے میرے دفتر میں بلا لیں۔ علامہ محمد اقبال نے فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ میرا معلم میرا مربی میرا استاد چل کر تمہارے دفتر میں آئے بلکہ آپ اپنا نمائندہ سیالکوٹ بھیجیں۔ ان کے گھر میں تقریب کریں اور ان کو شمس العلماءکا تمغہ دیں وگرنہ میں بھی سر کا ٹائٹل قبول نہیں کروں گا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ایک دن میں نے اپنا ٹی وی کھولا۔ ایک شخص حسن نثار نامی کہہ رہا تھا: کس بے وقوف نے ان کو شاعر مشرق‘ شاعر اسلام اور شاعر پاکستان بنا دیا۔ آگے جو کچھ کہا وہ میں لکھ نہیں سکتا جس معاشرہ میں اپنے بڑوں کو اپنے اساتذہ کو اپنے معلمین کو اس انداز میں پیش کیا جائے گا وہاں اساتذہ کو ذلیل کرنے اور ہتھکڑیاں لگانے کا درد کون محسوس کرے گا۔ نوے سالہ دینی استاد قرآن پاک حدیث و تفسیر پڑھانے والا ہزاروں استاد بنانے والا جیل میں ہتھکڑیاں لگا کر اور دوا کی عدم دستیابی پر موت ہوجائے اور جیل سے جنازہ اٹھے تو کون اس درد کو سمجھے گا اور معاشرہ غفلت کی نیند سوتا رہے گا۔ سرکار دو عالم نے فرمایا تھا: تمہارے اس دنیا میں تین لوگ باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ والد‘ سسر اور استاد۔ دوستو‘ بھائیو! اب بھی وقت ہے اٹھو‘ جاگو اور معمران قوم کے درجے کو پہچانو وگرنہ معاشرہ کے بے رحم ہاتھ ہر ایک کی گردن تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here