!!!قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے اثرات

0
159
پیر مکرم الحق

قاضی فائز عیسیٰ اثاثہ جات کے مقدمہ کے سنسنی خیز فیصلے نے اسٹیبلشمنٹ سمیت کئی طبقات کے طبق روشن کردیئے ہیں۔ایسا لگا جیسے کے مقدمہ عدالتی نظام کیلئے سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی مثال بن کر رہ گیا تھابہرحال سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی منقسم رہے اور یہ فیصلہ6-4کی تقسیم سے اکثریتی فیصلہ ہوا۔آج یہ محسوس ہورہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے باہمت موقف نے پھر ثابت کردیا کہ بارش کا پہلا قطرہ کتنا اہم ہوتا ہے۔رہی سہی قاصر بشیر میمن سابق ڈی جی ایف آئی نے بھی پوری کردی، پہلی مرتبہ سچ یہ ہے کہ ایک سندھی سینئر ریٹائرڈ پولیس افسر کا بہادرانہ موقف میڈیا پر دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی۔بشیر میمن مختلف سندھ کے اضلاع میں متعین رہتے آئے ہیںاور آئی جی کے عہدے پر پہنچنے کے بعد ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے پر پوسٹ ہوئے۔انکو اس عہدے پر لا نے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایک سندھی بولنے والے افسر جو سندھ میں دھڑلے سے آصف زرداری کے نامناسب احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتا رہا ہو اسے عام طورپر یہ سمجھ کر استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ تو ہمارے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجائیگا۔لیکن بشیر میمن ایک صاف ستھری شہرت رکھنے والے ایماندار افسر ہیں جن کا تعلق ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رہا ہے۔نوکری انکے نئے کوئی واحد ذریعہ معاشی نہیں رہی اسی لئے انہوں نے ملازمت کو بچانے کیلئے کوئی غیر قانونی کام نہیں کئے اور کسی سیاستدان نے(بشمول آصف زرداری) کوئی غیر قانونی کام کیلئے کہا بھی تو انہوں نے منع کردیالیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایماندار اور بہادر افسران کام کے معاملے میں نااہل ہوتے ہیںلیکن بشیر میمن میں باقی خصوصیات کے علاوہ کام میں مہارت بھی موجود تھی یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے موجودہ حکومت کے اکابرین کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کرنے سے انکار کیا تو قانونی اور آئینی فریم ورک کے ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن پہلے او ایس ڈی OSDجیسے اسلام آباد کی افسر شاہیOFFICER IN SEARCHOF DUTYیعنی وہ افسر جو کام کی تلاش میں ہو۔یہ مفہوم خالصتاً طنزنکالا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن پہلے اتنے بڑے سینئر عہدے سے ہٹا کرOSDلگانا ایک افسر کے کیرئیر پر ایک بدنما داغ لگانے کے مترادف ہے۔بشیر میمن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا اور ریٹائرمنٹ کے فوائد کو ٹھکراتے ہوئے مستعفی ہوگئے تھے۔یہ کسی حکومت کے منہ پر تماچہ مارنے کے مترادف اور کسی بڑے افسر کی طرف سے غیر متوقع قدم تھا بہرحال سندھ کے لوگ بجا طور پر بشیر میمن کے بہادر موقف پر فخر کر سکتے ہیں۔ادھر جسٹس قاضی عیسیٰ کے مقدمہ کے فیصلے نے عدلیہ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور اب کچھ جج صاحبان نے کھل کر آزادانہ فیصلہ کرنے کی سوچ کو اپنانا شروع کردیا ہے اور اہم اداروں کے اقدامات جوکہ قانون کے دائرے سے باہر ہیں انہیں کھل کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان کی عدالت میں تین شہریوں کی درخواست جس میں لاہور ہائی کورٹ کی اراضی پر ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کے قبضے کی شکایت کی گئی تھی۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوج اب یہاں سب سے بڑا قبضہ گروپ بن گیا ہے۔اور انہوں نے عدالتی عملے کو ہدایات جاری کیں کہ آرمی چیف کو عدالت کی طرف سے خط لکھ کر قبضہ چھڑوایا جائے۔آج سے پہلے اس طرح کی بات کرنیکی ہمت کسی جج کو نہیں ہوئی تھی۔اب عوام میں بھی شعور پیدا ہوگیا ہے اور عدلیہ نے بھی محسوس کر لیا ہے کہ جب تک عدلیہ میں غلط کو غلط کہنے کی ہمت پیدا نہیں ہوتی عوام کے دلوں میں عدلیہ کیلئے احترام اور مثبت جذبات پیدا نہیں ہوں گے ،باہمت جج صاحبان اور بہادر اہل وایماندار افسران کی اشد ضرورت ہے کیونکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا وقار ساکھ بدترین حد تک گر چکی ہے اور ہم بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here