پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
میڈیا کے ذریعے ممکن ہو گئے اور لوگوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ کئی برسوں تک ان ذرائع کا مثبت استعمال ہوتا رہا لیکن حالیہ برسوں میں الزام تراشیاں بے بنیاد تھیں اور الزامات کے ذریعے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے والے تشدد پسندوں کے ہاتھوں یہی میڈیا ایک عذاب بنتا جا رہا ہے ،تیلی سے گھر کے چولہے میں آگ بھی جلائی جاتی ہے لیکن پھر اسی تیلی سے کسی اور کے گھر میں آگ بھی لگائی جا سکتی ہے۔ عالمی طور ایسے جرائم جو کہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے ذریعے کئے گئے Cyber Crime کے قوانین تشکیل دیئے گئے اور خوس قسمتی سے یہ قوانین پاکستان میں بھی رائج کئے گئے ہیں لیکن تعلیم کی کمی اور قانون کے نئے پن کی وجہ سے لوگ ابھی تک ان قوانین کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان قوانین کے نفاذ کیلئے اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کر پائے لیکن ایف آئی اے نے بھی اپنے امریکی ہم عصر ادارے ایف بی آئی سے کافی رہنمائی اور تربیت دلوا کر اس کام کو آگے بڑھایا ہے۔
سوشل میڈیا کے منفی استعمال میں ہم سب قصور وار ہیں کیونکہ جھوٹی خبر یا پوسٹ لگانے والے کا تو مقصد ایک غلط بات کو پھیلانا ہے لیکن ہم سب ان کے آلہ¿ کار بن کر اس شخص کے جرم میں شراکت کار بن جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم پوسٹ اور ہر معلومات کو بغیر تحقیق کئے آگے مت پوسٹ کیا جائے اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اس پوسٹ کی سچائی کی انٹرنیٹ کے ذریعے بھی تحقیق کریں یا ایسے معلوماتی ذرائع استعمال کریں جنہیں آپ مستند سمجھتے ہوں چاہے آپ کا دوست ہی کیوں نہ ہو؟ اور اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو اسے ری پوسٹ یعنی آگے پوسٹ نہ کریں اور اگر آپ جان جائیں کہ یہ غلط ہے تو جس نے پوسٹ کیا ہے اسے آگاہ کریں کہ یہ غلط ہے اس طرح افواہوں کو پھیلنے سے روکنے میں آپ ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں آج کل لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں فارغ ہیں اور آج کل یہ افواہ سازی عروج پر ہے سازشی تھیوری بھی عروج پر ہے ہم سب ان فروعات کا شکار اس لئے ہیں کہ مثال کے طور پر ہم امیر ترین لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور کچھ ہم میں سے حاسد ہیں اب ایسے میں کسی نے اگر بل گیٹس کیخلاف خبر لگائی کہ بل گیٹس ایک سازش کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک ایسا ٹیکہ یا ویکسین تیار کروا رہا ہے جس کے ذریعے ایک ایسی چپ (جس طرح کمپیوٹر یا سمارٹ فون) میں ہوتی ہے کہ وہ انسان کی نقل و حرکت اور بیماریوں کے متعلق معلومات فراہم کرتی رہے گی یہ بات مکمل طور پر بے بنیاد اور لغو ہے۔ بل گیٹس 1996ءسے ترقی پذیر ممالک میں فلاحی و خیراتی کام کر رہا ہے پچھلے سال بل گیٹس نے چار ارب پچھتر کروڑ ڈالر رفاحی کاموں پر خرچ کئے ہیں 1996 سے اب تک چالیس ارب ڈالر کے خیراتی پراجیکٹ مکمل کر چکا ہے وہ دنیا کا امیر ترین آدمی ہے جس کا مذہب اور نظریہ انسانیت اور انسانی ذات کی خدمت ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج انسان ہے کوئی زیادہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا ہر سال اپنے اثاثوں کا دو فیصد وہ رفاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔ جس چِپ کی بات بل گیٹس سے منسوب کی جا رہی ہے وہ ممکنہ طور پر کے جی بی، سی آئی اے، ایم آئی 5 اور موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کے پاس پہلے سے موجود ہے، اسے انسانی ٹریکر کہا جاتا ہے جس طرح GPS گاڑی کو ٹریک کرتا ہے۔
کرونا وائرس کے آغاز کے متعلق بھی مختلف بے منطقی سازشی تھیوریاں ہیں چین نے بنایا پھر امریکہ اور یورپ بھیجا ایک امریکی شخص یہ بھی کہہ رہا ہے انٹرنیٹ پر کہ ایک امریکی خاتون جو کہ امریکی فوج میں سارجنٹ ہے ان کے ذریعے ووہان چین میں ہونےوالے سائیکل ریس میں یہ بیماری پھیلائی گئی ہے اب وہ خاتون اور ان کے خاوند کو دھمکیاں مل رہی ہیں یہ بھی قلعی طور پر جھوٹی خبر ہے برائے مہربانی افواہوں کو مت عام کریں۔
٭٭٭