مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
سیدہ خدیجة الکبریٰ نے اپنے غلام کی زبانی جب سرکار دو عالمﷺ کی تعریف و توصیف سنی، غلام نے کئی محیر العقول واقعات سنائے تو سیدہ جو طاہرہ، طیبہ کے لقب سے مکہ پاک میں مشہور تھیں اور مکہ کے متمول ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا سرکار دو عالمﷺ سے نکاح اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے کیا، اس کیلئے سیدہ نے بڑا غور و خوض کیا، سیدنا ابو طالب نے نکاح پڑھایا۔ پچیس برس کی عمر شریف میں نکاح ہوا۔ چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا۔ شادی کے یہ پندرہ سال کس طرح گزرے ،امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ آپﷺ اکثر اوقات باہر نکل جاتے ایک دن ایک وادی میں پہنچے جہاں ایک قافلہ اُترا ہوا تھا بھوک و افلاس ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ آپﷺ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے گھر تشریف لائے اور ایک طرف چار پائی پر چادر لے کر لیٹ گئے سیدہ تشریف لائیں پوچھا خیر ہے آپﷺ بڑے اُداس ہیں سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا میں آج چلتے چلتے ایک وادی میں پہنچ گیا وہاں میں نے بھوک و افلاس سے بھرے لوگ دیکھے میرے پاس دنیاوی مال و اسباب نہیں تھا اس لئے ان کیلئے کچھ نہ کر سکا لیکن میرا دل بہت رنجیدہ تھا اس لئے میں ایک طرف لیٹ گیا ہوں میری آنکھوں کے سامنے افلاس زدہ چہرے ابھی تک گھوم رہے ہیں ،سیدہ نے عرض کی آپﷺ خاندان کے چند بڑے اور مالدار لوگوں کو گھر بلا کر لائیے سرکار دو عالمﷺ تشریف لے گئے مکہ شریف کی یہ حالت تھی کہ آپﷺ کو سنا جاتا تھا آپﷺ کی ذہانت کے لوگ قائل تھے کس خوبصورتی سے حجر اسود کا مسئلہ حل کر دیا تھا جب روسائے مکہ گھر آگئے تو سیدہ نے جو اشرفیاں سونا اور چاندی سکہ رائج الوقت سارا ڈھیر لگا رکھا تھا حتیٰ کہ جو سونا چاندی پہن رکھا تھا وہ ڈھیر پر رکھ دیا پھر مکہ کے روساءکو مخاطب کر کے کہا اے میرے عزیز و بھائیو گواہ ہو جاﺅ کہ یہ سارا مال میں نے اپنی خوشی سے اپنے خاوند محمدﷺ کو دیا ہے آج سے یہ اس مال کے مالک ہیں جس طرح وہ چاہیں خرچ کریں جہاں چاہیں خرچ کریں۔ میرا اب اس مال سے کوئی تعلق نہیں ہے ،کوئی مائی کا لال جو سیدہ کی اس سنت کو ادا کرے رضی اللہ عنہا اللہ کروڑ ہا نعمتیں اور برکتیں سیدہ پر نچھاور کرے۔ آمین۔
٭٭٭