اشرف میاں کے بعد اشرف سہیل!!!

0
205

سلیم صدیقی، نیویارک

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، مسقط سے سعودی عرب سے نیو جرسی سے اور کن الفاظ سے یا دہشتگردی کی کن قسموں کا ذکر کروں؟ کن شکلوں سے تشبیہہ دوں جس نے بے شمار نابغہ روزگار ہستیوں کو اپنے نادیدہ ہتھیار سے نشانہ بنایا۔ میں اکثر مواقع پر ذکر کر چکا ہوں کہ بچپن میں والد صاحب ہندوستان میں طاعون کی بیماری کا ذکر کیا کرتے تھے 1913ءکی اس وباءنے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی جان لی تھی، میرے دادا اور دادی بھی میرے والد کے بچپن میں ایک ہفتے کے وقفے سے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تھے، وہ بتاتے تھے کہ ایک جمعرات کو ان کی والدہ اور دوسری جمعرات کو والد محروم (میرے دادا) کا انتقال ہو گیا تھا ،اس کے بعد آنے والے قحط کی بھی وہ بھیانک منظر کشی کیا کرتے تھے۔ آج وہ مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش آرہے ہیں اور ہماری نسلیں ان مناظر کی تصویر کشی کرینگی تاریخ میں مسخ حقائق بھی اس کی گواہی دینگے بھیانک جنگوں اور دہشتگردی کے خفیہ حملوں نے بھی کیسی کیسی ہستیوں کو نگل لیا، ڈرون اور خود کش حملے بھی ایسے ہی ان دیکھے دشمن ہر وقت اور بے وقت نشانہ بناتے تھے اور اب کورونا ایسی تاریخ رقم کر رہا ہے کہ اس کا علاج کرنے والے اور علاج کرانے والے بیک وقت نشانہ بن رہے ہیں اور بچاﺅ کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی، عراق، ایران جنگ کے بعد کنکریٹ کی رکاوٹیں اور نائن الیون کے بعد الیکٹرانک معجزات کے باوجود اس کورونا دہشتگردی نے بھی کسی کو نہیں بخشا۔ اشرف شیخ صاحب 70ءکی دہائی کے اوائل میں مسقط چلے گئے کوئٹہ اور سندھ کی مٹی کے امتزاج سے جنم لینے والے اس سپوت نے اپنا اگلا پڑاﺅ ریاض سعودی عرب منتخب کیا جہاں ہمیں ایک بہت بڑی کمپنی میں کام کرنے کا موقع ملا اشرف شیخ انجینئرنگ کے شعبے میں اپنے جوہر دکھاتے تھے جہاں سعودی ملٹری کا ایک بہت بڑا پراجیکٹ تھا ،دن رات کھانے پر یا اکثر ویک اینڈ پر کھلے میدان میں کرسیاں اٹھائے سینما دیکھنے پر ملاقات ہو جاتی تھی یا ان کے دولت کدے پر جہاں ختم قرآن پاک اور قرآن خوانی کی مبارک محافل سجائی جاتی تھیں جو دراصل ہماری بھابھی طیبہ بیگم کی مہمان نوازی کا ثبوت ہوا کرتی تھیں ،ان محافل میں دعا کی ذمہ داری اس ناچیز کے سپرد ہوا کرتی تھی جناب شیخ بڑے زندہ دل بزلہ سنج اور باریش انسان تھے ،مظفر بھائی، مشتاق قمر الحسن اور دیگر احباب ان محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے پھر میں لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری اور ولی عہد شاہ فہد کی کمپنی سے منسلک ہو گیا اور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اشرف شیخ تبوک کے علاقے میں ٹرانسفر کر دیئے گئے وہاں رات کو گاڑی کے آگے اونٹ آنے سے بھیانک حادثے میں کافی عرصے تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے غالباً 1980ءکے اواخر میں 1990ءکے اوائل میں نیو جرسی میں امیگرنٹ کے طور پر تشریف لائے جہاں ان کا پورا کنبہ ہے جس کے سینکڑوں افراد دھرتی پر اپنے ملتان کی تاریخ کی طرح اپنے نقوش ثبت کر رہے ہیں۔ چند دن قبل ہی انہوں نے شادی کی 50 ویں سالگرہ منائی۔
چونکہ ابتداءمیں میری رہائش بھی ان سے تین چار میل کے فاصلے پر تھی ،عمروں کا بہت زیادہ فرق نہ ہونے کے باوجود وہ مجھے بیٹا کہہ کر پکارتے تھے ،ادب سے ان کا شروع سے لگاﺅ تھا ،قلم اور زبان دونوں پر عبور حاصل تھا، نیویارک کے میٹرو ایریا میں پاکستانی کمیونٹی اُبھر رہی تھی، اردو اخبارات اور مقامی ٹی وی شوز کا بھی ظہور تھا شیخ صاحب ایک اعلیٰ پائے کے فوٹو اور ویڈیو گرافر بھی تھے۔ 1991ءمیں شوکت خانم ہسپتال کی فنڈریزنگ جس کی کمپیئرنگ نعیم بخاری نے کی، پنسلوینیا ہوٹل نیویارک سٹی میں وہ بڑی پُروقار تقریب بھی مرحوم استاد نصرت فتح علی خان نے کمال کے جوہر دکھائے ،وہ طویل تاریخی ویڈیو شیخ صاحب کے پاس موجود ہے۔
میری پریکٹیکل صحافت کو دیکھتے ہوئے پروگرام بنا کہ اخبار کا اجراءکیا جائے میں چونکہ ان دنوں فیملی کا منتظر تھا، شیخ صاحب ایک اعلیٰ پائے کے گھر میں رہائش پذیر تھے ،ان دنوں میرا پاکستان جانا ہوا جہاں سے میں نے شاہکار جو ان دنوں بہت مقبول ہوا تھا کا سافٹ ویئر مہنگے داموں خریدا اور قلم سے کمپیوٹر کا سفر ہم نے شروع کیا کمپیوٹر مقامی سوار سے خریدا اور اخبار جہاں کے پیٹرن پر شروع کیا، ان دنوں شہزاد جسٹس پیار سے گھر میں چُور چُو کہا کرتے تھے ،ابھی ہائی سکول کے طالب علم کی موت کے آہنی پنجوں نے اس وقت چھین لیا جب وہ ایک قریبی سوئمنگ پول میں نہانے گئے تھے میں ان دنوں پاکستان میں تھا غالباً 1993ءکی بات ہے کیپٹن شیخ نے اس گہرے صدمے کو کمال قوت سے برداشت کیا۔ مریم علی اور فہد کی شکل میں دوسرے بچوں نے انہیں سہارا دیا، طیبہ بیگم سے انتہائی لگاﺅ ، پیار و محبت، ازدواجی رشتے کے عظیم امتزاج نے انہیں معمول کی زندگی کی جانب لوٹا دیا تاہم ایسے زخم کہاں بھرتے ہیں ،ان کے بڑے صاحبزادے علی ایک سپیشل بچے تھے جو اب جوانی کی منزلیں بھی بستر پر ہی طے کر رہے ہیں، ان کی شکل میں قدرت نے آزمائش کے مراحل میں بھی شیخ صاحب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ،علی کی آنکھیں آج اپنے شفیق بابا کی جانب دیکھتی ہیں کہ کس وقت وہ علی بابا کہتے ہوئے پیار سے چٹکی کاٹیں گے۔
ان دنوں عمر شریف کے ڈرامے بڑے مقبول ہوا کرتے تھے، ان کے ڈرامے ہم دیکھا کرتے تھے مریم ان دنوں چھوٹی سی تھی اب خیر سے پیارے پیارے بچوں کی ماں ہے انہیں چھیڑنے کیلئے میں ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھنے لگتا بڈھا گھر پہ ہے، شیخ صاحب کے گھر میں شوبز کے ستاروں کا بھی آنا جانا تھا، بشریٰ انصاری، عارف لوہار، اور دیگر فنکار میرے ہمراہ ان کی مہمان نوازی سے محظوظ ہوتے تھے۔ پوری رات بشریٰ انصاری اپنی مزیدار گفتگو اور عارف لوہار اپنے خاندانی پس منظر اور لوہار نام کی تفصیل بتاتے، آج ان سب کو سوگوار چھوڑ کر افطاری کے وقت اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here