موت سے پہلے کوئی نہیں مرتا!!!

0
322
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

یہ درست ہے کہ موت اٹل حقیقت ہے اور دنیا میں آنے والے ہر انسان کا مقدر ہے، انسان دنیا میں چاہے جتنی بھی ترقی حاصل کرلے دنیا بھر کی دولت سمیٹ لے اپنا دامن مادی دولت کی خوشیوں سے بھر لے لیکن آخر اسے یہ دنیا چھوڑ کر چلے جانا ہے، ہم انسان یہ جانتے بوجھتے کہ موت کو تو آنا ہی آنا ہے ہم موت سے نظر چراتے زندگی گزار دیتے ہیں اور یہی نظر اندازی انسان کو اپنے مقصد حقیقی سے بے نیاز کر دیتی ہے۔انسان خود کو دنیا کے جھمیلوں میں اس حد تک الجھا کر رکھتا ہے کہ اسے اپنی موت یا اپنی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور سفرآخرت سر پر آن کھڑا بھی ہوتا ہے ،یہ دنیا جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں محض خواب و سراب کی دنیا ہے جب دنیا چھوڑ جانے کا وقت آتا ہے تب اس خواب کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے حقیقت تو وہ ہے جسے ہم خواب سمجھ کر مسلسل نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں،جینے کے ساتھ ساتھ مرنے کو بھی یاد رکھا جائے تو زندگی بھی سدھر جاتی ہے اور عاقبت بھی سنور جاتی ہے ۔انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے اور یہی حقیقت پسندی ہے کہ انسان اپنے حصّے کی بھرپور زندگی بھی جی لے اور اپنی موت کے بعد کے سفر کا سامان بھی کر لے کہ انسان کی اصلی اور ابدی زندگی تو موت کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔
حضرت خالد بن ولید کا نام تاریخ میں رہتی دنیا تک زندہ رہے گا ، انھوں نے اپنے دور میں جتنی جنگیں لڑیں اس کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، یاد رہے کہ وہ ہر جمعہ کو ایک نیا شہر فتح کرتے اور وہاں نماز ادا کیا کرتے تھے ، ہمارے آج کے مسلمان اور اس وقت کے مسلمان کے ایمان کا حال یہ ہے کہ حکومت آج کورونا وائرس کا نام سن کر سہم جاتی ہے ، حضرت خالد بن ولید جیسے جنگجو سپاسالار نے مسلم اُمہ کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ، اس نڈر حکمران نے دنیا بھر کے بزدلوں کو پیغام بھی بھیجا تھا کہ اگر میدان جہاد میں موت لکھی ہوتی تو خالد بن ولید رحمتہ اللہ کو موت بستر پر نہ آتی ، کورونا وائرس کے خوف سے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے گھروں میں بند ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے لیکن کورونا وائرس کا خوف ضرور ہے ، ہمارے ایمان کی مضبوطی کا خوف بلکل نہیں ہے ، میرا ایمان اور یقین ہے کہ آپ ہر لحاظ ہر سطح پر احتیاط کریں اور کورونا وائرس سے ڈریں بلکل نہیں بلکہ اپنے ذہن سے کورونا کا خوف بلکل نکال دیں کیونکہ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی دی ہے ، اس سے زیادہ یا کم کوئی نہیں کر سکتا ہے ، اس لیے موت گھر کے اندر بھی آ سکتی ہے اور گھر کے باہر بھی آ سکتی ہے ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہئے کہ مسلمان ہونے کے ناطے کیا ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہیں ، نماز ، روزہ اور حضورﷺ کے بتائے ہوئے تمام احکام پر کیا ہم عمل کر رہے ہیں ؟ میںکورونا وائرس لاک ڈاﺅن کے باوجود ہر جمعرات کو معمول کے مطابق اپنے اخبار کو تیار کرتا ہوں،پرنٹ کراتا ہوں اور پھر خود ہی اپنی گاڑی میں اس اخبار کو تقسیم بھی کرتا ہوں اور میرا اخبار کمیونٹی کا واحد اخبار ہے جوکہ کورونا لاک ڈاﺅن کے دوران بھی معمول کے مطابق پرنٹ ہورہا ہے، ایک وقت تھا کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا تھا اور ہم اگر کوئی غلط کام کرنے کی کوشش بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ کا خوف ہم پر حاوی ہو جاتا تھا جبکہ آج ہم مسلمان صرف باتیں کرتے ہیں ، عمل کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ، ہماری نسل کے لوگ رفتہ رفتہ کورونا وائرس کی نظر ہو رہے ہیں ، آج بھائی اشرف سہیل چلے گئے ، نیو جرسی کی شان تھے ، ادب کو زندہ رکھا ہوا تھا ، اسی طرح قریب قریب کے کئی دوست چلے جا رہے ہیں ، دیکھیں کہ ہماری باری کب آتی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ہماری موت کورونا وائرس کے خوف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ ہوگی ، میری تمام دوستوں ، قریب کے لوگوں اور عزیز و اقارب سے درخواست ہے کہ اللہ کی جانب رجوع کریں ، اللہ تعالیٰ سے خیر مانگیں ، ایک دوسرے پر تنقید ختم کریں ، سوشل میڈیا پر جس طرح ایک دوسرے کے خلاف باتیں ہوتی ہیں ، اسے اب ختم ہو جانا چاہئے کیونکہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم نے اب تک کتنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اور جو وقت باقی ہے ،اسے نیک کاموں پر لگائیں ، شاید اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے ، ہمارے لوگ اپنے اپنے سیاسی لیڈران کیلئے جس جذبے سے ان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اگر یہی سوچ و جذبے سے اپنے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا شروع کردیں تو نہ صرف ہماری دنیاوی کامیابی ہو جائے گی بلکہ آخرت بھی سنور سکتی ہے ، آئیے ہم اپنے رب کے خوف کو اپنے پر حاو ی کریں اور کورونا وائرس کے خوف کو نکال باہر کریں جس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر کو اپنانا ضروری ہے،ہم پر اللہ کی خاص عنایت اور خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے نبیﷺ کی سنت اور اپنے پاک کلام کی صورت میں نور ہدایت بخشا ہے تو پھر کیوں نہ ہم اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات کو اسوہءحسنہ اور کلام پاک کی تعلیمات کی روشنی میں بخوبی انجام دے کر دنیا و آخرت دونوں جہانوں کی سعادتیں سمیٹ لینے کی تدبیر کریں اور مقدر کے سکندر بن جائیں۔کہتے ہیں کہ ہر انسان دنیا میں روتے ہوئے آتا ہے اور تقدیر کے ہاتھوں انسان کو بارہا رونا بھی پڑتا ہے لیکن جو انسان حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی زندگی کو قرآن و سنّت کے مطابق بسر کرتا ہے، اسے دنیا سے رخصت ہوتے وقت رونا نہیں پڑتا بلکہ وہ دنیا سے جاتے ہوئے ہنستا ہوا جاتا ہے اور وہی ”مقدر کا سکندر“ کہلاتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here