کامل احمر
امریکہ میں کرونا وائرس کا شکار ہونےوالوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں، شروع سے ہی لاپرواہی برتی گئی صدر ٹرمپ نے اس وباءکو ہلکے انداز میں آلودگی کے انداز میں لیا۔ دوسرے فیڈرل اور ریاستی حکومتوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کورس جاری رکھا۔ ہر کسی نے بھاشن بہت دیئے لیکن کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا آئیں پہلے ہم نیویارک میں سب سے زیادہ اموات ہونے کی وجہ بتاتے چلیں ،گورنر نیویارک نے کرونا وائرس کو اپنی پبلسٹی کا ذریعہ بنایا کہ روز آکر انہوں نے رکونا سے شکار اور مرنےو الوں کی تعداد بتائی یہ معلومات ٹی وی کی خبروں میں لمہ بہ لمحہ دی جا رہی تھی میئر ڈی بلازیو کے احتجاج کے باوجود گورنر نے سب وے سسٹم بند کرنے پر توجہ نہیں دی جس میں بے گھر افراد کا قبضہ تھا، وائرس پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ٹرینیں تھیں جو دن رات وائرس پھیلاتی رہیں۔ کہا گیا کہ لوگ جاب پر کیسے پہنچیں گے جبکہ ہرکسی کے پاس کار ہے اور جن کے پاس نہیں وہ دوسرا انتظام کر سکتے تھے۔ ماسک پہننے کیلئے کوئی سختی نہیں کی گئی۔ ساحلوں کو بند نہیں کیا گیا، پارک کُھلے رہے، گالف کے میدان بھی کُھلے رہے بلکہ گورنر کی طرف سے اعلان بھی کیا گیا۔ ساتھ ہی لاک ڈاﺅن کا بھی اعلان ہوا لیکن کوئی سختی نہ تھی۔ شہر میں 30 ہزار پولیس فورس ہے لیکن سینٹرل پارک میں پچھلے اتوار کو لوگوں کا ہجوم دیکھا گیا، کہہ سکتے ہیں کہ گورنر نے Too Little To Late کے فارمولے کو اپنایا۔ صرف روز روز کی پریس کانفرنس کافی نہ تھی، ہسپتالوں میں ایک ضروری چیز ماسک تک نہ تھے یہ کس کی ذمہ داری ہے، میئر نیویارک نے حتیٰ الامکان عملی جدوجہد کا مظاہرہ کیا اور گورنر کو صورتحال سے آگاہ کیا تو کہیں وہ آمادہ ہوئے سب وے کو 6 مئی کے بعد رات ایک سے صبح 5 بجے تک بند کرنے کیلئے اور وہ بھی صرف صفائی کیلئے جو گندگی (فضلا) بے گھر لوگوں نے کی تھی جبکہ رات میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے سفر کرنے والوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم تھی ہم نے ایک ویڈیو کسی نہ کسی طرح حاصل کی تو اسے دیکھ کر ہماری بھوک ہی ختم ہو گئی، اس قدر گندگی پھیلائی گئی تھی کہ ہم نے اسے کسی اور کو نہیں واٹس ایپ کیا۔ یہ ہم بتا چکے ہیں کہ جے ایف کے مارچ کے ماہ میں بھی کھلا تھا۔ اور ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ چائنہ سے نیویارک اور کیلی فورنیا آرہے تھے بغیر کسی چیکنگ یا طبی دیکھ بھال کے۔ کیلیفورنیا کے گورنر نے جہاں شروع میں وائرس تیزی کےساتھ پھیلا تھا دو ہفتوں میں قابو پا لیا اور نیویارک ریاست میں گورنر کومو کی روزانہ کی بریفنگ کے نتیجے میں (عملی تدابیر کے بغیر) مرنے والوں کی تعداد 24100 تک جا پہنچی ہے کیلیفورنیا میں صرف 2176 تھی اتوار کی شام تک نیوجرسی دوسرے نمبر پر جانی نقصان کی مد میں 7742 کی تعداد تک پہنچا تھا۔ دونوں ریاستوں کے گورنر ایک دوسرے کی تعریف کرتے دیکھے گئے۔ دونوں ریاستوں میں تیسری دنیا کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، مرنے والوں کی تعداد 1900 ہے اتوار تک آج ہمیں اطلاع ملی کہ ورجینیا کے ڈویس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک چارٹرڈ فلائٹ کی اسلام آباد سے جرمنی ہوتی ہوئی پہنچی مسافروں کو 5 گھنٹے علیحدگی میں ایئرپورٹ پر بٹھائے ر کھا اور اس کے بعد بغیر حفاظتی طبعی چیکنگ کے باہر جانے دیا۔ ایئر لائن نے 15 سو ڈالر فی کس چارج کئے تھے۔ اس سارے واقعات کے تناظر میں ہمارے پاس جو الفاظ ہیں وہ غفلت ، غیر ذمہ داری اور الزام تراشی کے علاوہ بیان بازی وہ بھی فضول میں جیسا کہ صدر ٹرمپ کے داماد کشنر جو صدر کے سینئر مشیر بھی ہیں نے بیان دیا، ریاستوں کے پاس نمونے جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور نہ ہی ٹیسٹ کرنے کا۔ ان کا کہنا درست ہو سکتا ہے لیکن ان کے سسر کو مشورہ کیوں نہیں دیا گیا مگر یہ ان سے کون پوچھے؟ اگر آپ صدر ٹرمپ، گورنر کیومو ،ڈاکٹر فاﺅچی، ڈاکٹر برکس کی کارکردگی پر تالیاں بجا رہے ہیں تو ہم کہیں گے خواب خرگوش میں ہیں، طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے۔ صرف فاصلے اور ماسک سے کلّی طور پر اس موذی وائرس کو نہیں روکا جا سکتا تھا۔ مکمل لاک ڈاﺅن کی ضرورت تھی۔ اس کا ذمہ د ار ہم امریکی عوام کو ہی ٹھہرائینگے کہ درجہ حرارت کے بڑھتے ہی اس ہفتہ نیشنل مال واشنگٹن ڈی سی اور سینٹرل پارک میں لوگوں کا ہجوم دیکھا گیا ،وہ بے چارے گھر میں بند تنگ آچکے تھے اور سب سے زیادہ تنگ مشی گن کے شہر لانسنگ میں لوگوں نے گورنر ہاﺅس کا گھیراﺅ کر لیا اور ہنگامہ آرائی پر اُتر آئے۔ یہی حال فلوریڈا نے خوش باش سمندر کے کنارے پر لوگوں کا تھا تو آپ ہی بتائیں کرونا کو کیسے روکا جا سکتاہے، مرنے والوں کی تعداد امریکہ میں مسلسل بڑھ رہی ہے، اب تک ایک اعشاریہ ڈھائی ملین امریکی اس کی زد میں ہیں اور جمعرات تک مرنے والوں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہو جائے گی۔ مایوس کن خبر یہ ہے کہ اس وائرس کا دوسرا پارٹ اگست میں ہوگا پیشن گوئی ہے خدا کرے غلط ہو لیکن خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ لوگ مہینوں گھر میں بند رہنا پسند کرینگے کہ ابھی کوئی ویکسین، انجکشن ایجاد نہیں ہو رہا ہے اس سلسلے میں دو باتیں ہیں، آکسفورڈ لندن کی لیب، جون تک اس انجکشن کا ٹرائل شروع کر دے گی جبکہ ڈاکٹر برکس (وائٹ ہاﺅس ترجمان) کا کہنا ہے جنوری تک (یقین نہیں) فی الحال FDA نے ایمرجنسی میں ایک دوا Remdesivir کے استعمال کی اجازت دیدی ہے۔ اس وائرس کے علاج کیلئے، سیاسی تناظر میں صدر ٹرمپ جو چین کی کرونا کے خاتمے پر تعریف کر رہے تھے کہہ رہے ہیں اس وائرس کا ذمہ دار چین ہے اور ہاں میں ہاں ملانے کیلئے سیکرٹری خارجہ مسٹر پومپیو نے بھی ٹھوس انداز میں بیان دیا ہے۔ ٹرمپ نے خوشخبری بھی دی ہے اگلا سہ ماہی شاندار ہوگا جبکہ تین کروڑ لوگوں نے بیروزگاری الاﺅنس کیلئے درخواستیں دی ہیں۔
٭٭٭