سلیم صدیقی، نیویارک
نوجوان ڈی سی حمزہ ایک مثالی ڈی سی ہیں،ان طبقات کے بتوں کو بھٹو صاحب نے توڑا تھا ،اب عمران خان انہیں عوام کا حکمران نہیں سچا خادم بنانے میں مصروف ہیں۔ کورونا وائرس کے بعد اندرون و بیرون ملک اس کلاس پر بھاری ذمہ داریاں نبھانا پڑ رہی ہیں ،نیویارک کے پاکستانی قونصلیٹ اور واشنگٹن کی پاکستانی ایمبیسی نے بھی حالات کے مطابق کاروائی کی ،نیویارک والے تو پہلے قرنطینہ میں چلے گئے تھے بعد میں انہیں خیال آیا کہ ملک پر ایک عادل حکمران بھی جاگ رہا ہے اس دوران سوشل میڈیا پر بھی لعن طعن شروع کردی گئی جو اپنے دفاع میں کچھ کر نہیں کرسکتے تھے۔ حالانکہ امریکہ میں اس وبا سے شہید ہونے والے پاکستانی امریکن اسی سرزمین میں آسودہ خاک ہوئے انکی تمام رسومات بھی ادا کی گئیں انکی میتیں لے جائی بھی نہیں سکتی تھیں نہ ہی سفارت کار عملی طور پر کچھ کرسکتے تھے، جو بھی ہونا تھا مقامی ادارے ہی کرسکتے تھے ۔لواحقین میں سے کسی کی شکایت میری نظر سے نہیں گزری مگر ان کے چاچے ماموں نے اخلاقیات کی حدود کراس کرلیں جس سے یہ ہوا کہ وزیراعظم کے ایک مشیر نے ایک ویڈیو کال پر انکی تسلی کردی۔ ق لیگ سے اقتدار سے محرومی کے بعد بمعہ ٹبر تحریک انصاف میں آنے والے پجاریوں کا بھی کنسٹرکشن گروپ سرگرم ہوگیا۔جبکہ پاکستان میں پھنسے ان ہم وطنوں کے لئے ان نام نہاد دانشوروں کے قلم، کیمرے، جام اور زبانیں گنگ ہوگئیں، اپنے سفارت کار بے چارے کمزور کم مایہ تھے ان پر زور دار چڑھائی کی گئی مگر ان کی ہمت نہ ہوئی کی اسلام آباد یا لاہور امریکن قونصلر سروس سے پوچھنے کی جسارت کرسکتے کہ یہ لوگ اپنے گھر کب آئینگے جبکہ یہاں وفات پانے والے اور اسلام آباد لاہور اور دیگر جگہوں پر محصور بھی امریکی ہیں ،امریکی حکومت انکے دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔
نائن الیون کے بعد ایک پاکستانی سفیر نے مجھ سے کہا تھا کہ انہیں امریکی سیکورٹی اداروں نے ریکارڈنگ سنوائی تھیں کی کہ پاکستانی امریکن کیسے خوشی کا اظہار کررہے تھے بعد میں اسکے نتائج بھی سامنے آئے، وقت کا تقاضا ہے کہ میچوریٹی کا مظاہرہ کیا جائے، ووٹ کا نہ تو کوئی اندراج کرواتا ہے نہ ہی استعمال اورنہ ہی کسی دانشور نے کبھی ترغیب دلانے کی کوشش کی ، کوئی اور تھے جنکی ساتھ تصویریں اتروائی اور چھپوائی جاتی تھیں، آج زلفیں دراز ہیں تو انکی پذیرائی ہو رہی ہے، گل نہیں نہ ہی سدا بہار ہے مگر گلیاں سونی ہیں تو کیا ہوا مرزا یار تو پھر رہا ہے۔
٭٭٭