سلیم صدیقی، نیویارک
گذشتہ دنوں لاہور کے قریب موٹر وے پر آدھی رات کے وقت ایک خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے روزانہ اس قسم کے سنگدلانہ اور وحشیانہ واقعات ہوتے ہیں جس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورا معاشرہ کس قدر بے حس ،ظالم اور سنگدل ہو چکا ہے ،یہ واردات کسی جاگیردار یا بااثر شخص نے نہیں بلکہ جرائم پیشہ اوباش لڑکوں نے کی اسی ہفتے کی خبروں میں ملک کے بیشتر علاقوں سے اسی قسم کی خبروں سے میڈیا گونج رہا ہے،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم سب معاشرے کی گرتی ہوئی حالت پر غور کرنے کی بجائے سیاسی بیان بازی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔لاہور کے ایک پولیس افسر نے سماجی پس منظر میں ایک بات پبلک میں کہی بظاہر انکا کہنا درست تھا مگر قانون نافذ کرنے والے ایک افسر کی وردی میں اس بیان نے طوفان کھڑا کردیا عمران حکومت کی مخالفت میں ان لوگوں نے جو ملک پر قابض رہے ہیں ادارے تو تباہ کردئے تھے معاشرتی اقدار کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔میں نے ایک کالم میں ففتھ جنریشن وار فئیر کا ذکر کیا تھا ملک اسی کی زد میں ہے اور مین سٹریم میڈیا کی بداعمالیوں اور نااہلی نے سوشل میڈیا کے اس میڈیم کے ذریعے ملک اور معاشرے کو پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ حالیہ محرم کے دنوں میں چند بدبخت جاہل ذاکروں نے ایک بار پھر اپنی ازلی بدبختی اور بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابہ کرام کی شان اقدس میں گستاخی کی اسکے جواب میں جلوس نکال کر جو کچھ کیا گیا اس نے بھی زیادہ اچھا تاثر نہیں چھوڑا بجائے اس کے کہ ہم خود اچھے انسان اور مسلمان بنیں حیوانوں کو بھی پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں کیا اللہ تعالی کے آخری نبی ﷺ اور اسکے محبوب جن کے نام پر ہم قربان ہونے کے نعرے لگاتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ انکی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرکے انکی سیرت کو ہی اپنی زندگیوں کا ماخذ بنالیں،بردباری تحمل اور درگزر ایسا عمل ہے جس سے بہت سی برائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
موٹر وے سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس درندگی اور حیوانیت پر شدید ردعمل جاری ہے مگر وقتی اشتعال پر قومی رہنماو¿ں عدلیہ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کہیں بھی سنجیدہ قانون سازی یا مثبت تجاویز پر بحث نہیں ہو رہی، پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں بھی حکومت کی تذلیل اور تضحیک جاری ہے اور اپوزیشن کوئی قابل عمل تجاویز یا بلوں کی بجائے اس واقعے میں حکومت اور پولیس کو نشانہ بنا رہی ہے ۔حکومت نے بروقت اقدامات کئے مگر دفاعی پوزیشن اختیار کررکھی ہے ،سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عدالتی سسٹم میں اصلاحات کی بجائے ناجائز قسم کے ریمارکس دینا شروع کردئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قانون بنانے والے قانون نافذ کرنے والے اور انصاف کی کرسیوں پر براجمان یہ لوگ معاشرے میں کونسی تبدیلی لانے کے قابل ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز معید پیرزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے جنسی درندوں کو نامرد بنانے کی جو تجویز دی ہے اسے عالمی میڈیا میں زبردست پذیرائی ملی ہے، نیویارک پوسٹ نے اپنی ویب سائٹ پر عمران خان کی تصویر کے ساتھ تفصیلی خبر لگائی ہے اس پر زبردست خیر مقدمی تبصرے شروع ہوگئے ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو امریکہ آکر اس قانون کو نافذ کرنے ضرورت ہے، ایک لکھاری نے کہا ہمیں اس بندے کی امریکہ میں ضرورت ہے ۔
٭٭٭