مجیب ایس لودھی، نیویارک
ہم امریکہ کو ایک ایسا معاشرہ سمجھ کر یہاں آئے جہاں انسانیت تھی، ایک دوسرے کا لحاظ تھا، انسان تو انسان یہاں جانوروں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کسی بھی شخص خواہ وہ امریکی شہری ہو یا نہیں کسی کو اس بارے کوئی خیال بھی نہ تھا کیونکہ امریکہ میں ہر شخص کو امیگرنٹ ہی سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے امریکہ کی پہچان بھی امیگرنٹس کا ملک کہا جاتا تھا تھا لیکن 9/11 کے واقع کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ انسانیت بھی بدل گئی ، لوگوں کا رویہ بھی بدل گیا۔ ہر شخص خصوصاً مسلمانوں کو برُی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اس فرق کو یہاں کے میڈیا نے بری طرح ہوا دی کیونکہ 9/11 کے واقع میں یہاں کا بڑا میڈیا حصہ دار تھا ،اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس سازش کے پیچھے کون کون اور کیوں تھا بہت کچھ میڈیا میں بھی آچکا ہے لیکن یہ فرق دھیرے دھیرے ختم ہونے کی بجائے ایک بار پھر بڑھ رہا ہے ۔
نائن الیون حملے کے متعلق تمام سکولوں کے طلبا کو مفصل طریقے سے بریف کرنے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ نائن الیون حملے کو کسی صورت بھی مسلمانوں سے منصوب کر کے آئندہ نسلوں تک نہ پیش کیا جائے ، سکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں نائن الیون حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی میموریل تقاریب بھی منائی جاتی ہیں لیکن ہمیں اس سانحے کو بہتر انداز میں نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا چاہئے کیونکہ کالج کی طلبا کی اکثریت نائن الیون کے حقائق کو جاننے کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار نہیں اور سکول کے طلبا تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔2019کے دوران ٹائم میگزین کی جانب سے کیے گئے سروے میں 1ہزار سے زائد اساتذہ نے اپنی آرا کا اظہار کیا جس میں 71فیصد نے بتایا کہ وہ نائن الیون کے متعلق معلومات کی فراہمی کے لیے ویب سائٹس کا سہارا لیتے ہیں ، 33فیصد نے کہا کہ وہ خصوصی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ نصاب استعمال کرتے ہیں جبکہ 23فیصد نے بتایا کہ وہ ٹیکسٹ بکس کا استعمال کرتے ہیں لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ نائن الیون کے متعلق رہنمائی کے موقع پر مسلمانوں کیخلاف نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے جوکہ مسلم طلبا اور ان کے والدین کے لیے کافی برُا احساس پیدا کرتا ہے ۔نائن الیون کی برسی مسلم طلبا اور ان کے والدین کے لیے شرمندگی کی علامت بن گئی ہے ،کلاس میں بیٹھے مسلم طلبا کے سامنے اساتذہ مسلمانوں کو دہشتگرد اور نفرت آمیز قرار رہے ہوتے ہیں ،اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سکولوں کے اساتذہ اس بات کو سمجھیں کہ کلاسز میں صرف عیسائی طلبا ہی موجود نہیں ہوتے ہیں بلکہ مسلم طلبا بھی ان کی رہنمائی میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ نائن الیون کو ضرور نوجوان نسل تک پہنچایا جائے لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کسی صورت اس کا حصہ نہیں بننا چاہئے ۔ سازشی ٹولے نے صدر ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنایا تاکہ مسلمانوں پر ایک بار پھر کاری ضرب لگائی جائے اور پھر وہی ہوا ۔صدر ٹرمپ نے صدر بنتے ہی مسلمانوں کیلئے امریکہ آمد پر پابندی لگا دی۔ گذشتہ دو سال سے ٹرمپ نے امریکہ میں کوئی کار آمد کام نہیں کیا صرف مسلمانوں پر پابندی، امیگرنٹس پر پابندی جن میں خصوصاً مسلمانوں اور ہسپانوی ممالک کے غیر قانونی لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور ملک بدر کیا جس کی وجہ سے پورے امریکہ میں کام کرنیوالے محنت مزدوری کرنیوالوں کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے افریقن امریکن پر پولیس گردی کو ہوا دی جس پر پورے امریکہ میں یہ آگ پھیلتی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے اب امریکہ کو نسلی فسادات میں داخل کر دیا ہے جدھر جائیں Black Live Matter کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ آج کا امریکی میڈیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ سی این این ، نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور کئی بڑے میڈیا ہاو¿سز صدر ٹرمپ کیخلاف صف آراءہیں جبکہ فاکس نیوز اور ان سے متعلقہ میڈیا صدر ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس آج بھی کسی بھی میڈیا میں اپنی پہچان نہیں ہے کمیونٹی کے اندر تو ”پاکستان نیوز“ سے بڑا کوئی اخبار امریکہ میں نیشن وائیڈ سطح پر نہیں ہے لیکن انگلش میں بڑی سطح پر نہ ہی کوئی اخبار، میگزین یا ٹی وی موجود ہے۔ ہماری کمیونٹی میں آج کئی ایسے نام ہیں جن کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں لیکن امریکی میڈیا میں ہمارا کوئی ذکر نہیں ہے۔ آج ہمیں امریکہ بھر میں اپنا میڈیا چاہےے جس کی آواز پورے امریکہ اور وائٹ ہاو¿س تک سنائی دینی چاہئے۔ اگر آج ہمارے پاکستانیوں کو جن کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے اگر انہوں نے مسلمانوں کی پہچان پر کوئی اخبار، میگزین یا ٹی وی نہ بنایا تو یاد رکھیں ہماری قوم کے ساتھ بھی وہ ہی ہو گا جو ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان نیوز کئی بڑے امریکی شہروں میں ہر ہفتہ گذشتہ 24 سالوں سے باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے اگر کسی بھی غیرت مند دولتےے کا خون جوش مارے تو ہماری خدمات ہر سطح پر حاضر خدمت ہیں۔ میں نے کئی بار اپنے ایک میڈیا کے دوست کے ساتھ کوشش کی لیکن اخراجات میں کمی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ یاد رکھیں ہماری آئندہ کی نسلوں کی بہتری اور سلامتی کو محفوظ بنانے کیلئے یا ایک اور 9/11 جیسی سازش سے محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں ایک مضبوط میڈیا کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہمیں امریکہ میں بے شمار لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن ان سنجیدہ بزنس مینوں کی ضرورت ہے جو اس میڈیا کی اہمیت کو سمجھیں۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کا میڈیا مضبوط ہوتا تو ہماری آواز سنی جاتی ، مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبار نہ ہونے کی وجہ سے ہماری جنریشن ہمیشہ ہمیں شرمندہ کرتی رہے گی ، مسلمان امرا اپنی عیاشیوں پر کثیر رقم پانی کی طرح بہاتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے اہم حصے سے غافل ہیں ، ادارہ پاکستان نیوز اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عرصہ دراز سے اپنے مسلمان بھائیوں کی خبروںکے مطالع کی ضرورت کو پورا کرتا آ رہا ہے ، ہم بھی اس ذمہ داری کو باخوبی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے، ہماری صاحب حیثیت افراد سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے کردار ادا کریں یا تو ہمیں اس کا موقع دیں یا خود اس روشن باب کا آغاز کریں ہم بھرپور ساتھ دیں گے ۔
٭٭٭