کامل احمر
”پچھلی جمعرات کی شب بریکنگ نیوز آئی“ گوجرانوالہ جانے والی موٹروے پر ایک خاتون کا ریپ“ایوب خان کا دور تھا اور کراچی کی مشہور اور پوش اسٹریٹ ایلفسٹن جیسے لوگ ایلفی کے نام سے پکارتے تھے۔دن دیہاڑے ایک پندرہ سالہ لڑکی کو جو اپنے بھائی اور ماں کے ساتھ شاپنگ کرنے نکلی تھی ایک جانور صفت آدمی نے دبوچ لیا اردگرد کی بھیڑ میں سے لوگوں نے اسے پکڑ کر ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ لڑکی کو نیچے گرا کر اس پر سوار ہوگیا لوگ اسے مار رہے تھے ڈنڈے برسا رہے تھے گلے میں بازﺅ ڈال کر کھینچ رہے تھے۔بالآخر لوگوں نے اردگرد چادریں تان دیں وہ ناکام ہوچکے تھے لڑکی کو چھڑانے میں اور وہ حیوان کے ساتھ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں زنا بالجبر کر چکا تھا، پولیس نے آکر اسکے پکڑ لیا ،لڑکی کو ہسپتال لے جایا گیا۔یہ بات گورنر کالا باغ تک پہنچی اور بغیر کسی طویل مدت کے اسے سرعام پھانسی پر چڑھا دیاگیا۔پھر ایسا واقعہ سننے میں نہیں آیا ایسا نہیں تھا کہ اس قسم کے حادثات رک گئے ہونگے کہیں نہ کہیں رات کی تاریکی میں ہوتے رہے ہونگے اور مظلوم بدنامی کے ڈر سے خاموش ہوگیا ہوگا۔اور آج بھی پاکستان میں ہزاروں وارداتیں تھانوں تک نہیں پہنچتیں وہ گھروں، کھیتوں، اندھیری گلیوں اور چھتوں پر ہی دم توڑ دیتی ہیں۔پاکستان واحد ملک نہیں جہاں یہ واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن اس لحاظ سے اچھوتا ملک ہے جہاں کمسن بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے اور یہ وبا اب گھروں سے نکل کر مساجد اور مدرسوں میں پہنچ چکی ہے جہاں بچوں کے ساتھ مولوی بدفعلی کرتا ہے اس لحاظ سے یہ لوگ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ جانور سے بھی بدتر ہیں جو عمر کا بھی لحاظ نہیں کرتے آپ نے کبھی جنگل یا درخت کے نیچے جمع آوارہ کتوں کو بھی ایسا کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ایسا کیوں ہے اس کی وجہ کیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں ان درندوں کو پھانسی دینے کے بعد ایسے گھناﺅنے جرائم بند ہوجائینگے۔یہ ضرور ہے اور میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اس موقف کو سرے سے ہی احمقانہ کہونگا کہ جانوروں سے بھی بدتران انسانوں کو معاشرے سے برد کرنا ہی ضروری ہے۔یہ بھی خبر ہے بلکہ حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے دس ملکوں میں گنا جاتا ہے جہاں زنا بالجبر کے واقعات ہوتے ہیں ان دس ملکوں میں امریکہ ٹاپ ہے صرف کیلی فورنیا میں پچھلے سال15505حادثات رونما ہوئے تھے اور انڈیا اس لحاظ سے سرفہرست ہے کہ وہاں پر16منٹ بعد ایک زنا ہوتا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی گینگز ریپ کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں ایک مشہور کیس کی مثال دیتے چلیں جو انڈیا کی عدلیہ کا لینڈ مارک فیصلہ ہے نربھایا کیس جس میں ایک لڑکی کو جو اپنے فرینڈ کے ساتھ گھر جارہی تھی۔ڈرائیور سمیت کئی لوگوں نے بس کی پچھلی سیٹ پر ریپ کیا اور اسے زخمی حالت میں سڑک پر پھینک دیا جو زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال میں دم توڑ گئی، ملک بھر میں احتجاج کے بعد ملزمان کو سزا ہوئی واردات کے سات سال بعد چار کو پھانسی ایک کو کم عمری کی بنا پر دو سال اور ڈرائیور نے خودکشی کرلی ،حوالات میں اس کے بعد ایسے واقعات میں کمی آئی۔بنگلہ دیش میں طالبہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مرتکب16افراد کو سزائے موت سناتے ہوئے جج نے ریمارکس میں لکھا”یہ پڑوسی ملک نہیں بنگلہ دیش“لڑکی کا نام نصرت جہاں تھا جس نے اپنے ساتھ اس واردات کی رپورٹ میں اپنے ٹیچر کو مورد الزام ٹہرایا تھا اور انتقامی کارروائی کے طور پر اسے آگ لگا کر مار دیا گیا تھا یہ سب مسلمان تھے اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والے اور پاکستان میں بھی مذہب سے پیار کرنے والے سب ہی ہیںلیکن اس پر عمل کرنے والے کم اور اس لحاظ سے پاکستان اکلوتا ملک ہے جہاں عدلیہ کے فیصلوں پر عملداری ناممکن بنا دی گئی ہے اور ایسا کرنے میں پنجاب اور سندھ کے صوبے ٹاپ پر ہیں جہاں اگر جج سزا سنا بھی دے تو پولیس اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتی۔ثبوت کے طورپر ہم کچھ مثالیں دیتے چلیں ،یہ وہ نام ہیں جو سب کو یاد ہیں جو جیل سے بری ہونے کے بعد انگلیوں سےVکا نشان بنا چکے ہیںاور ان سب کا تعلق بڑے گھرانوں سے ہے یہ ہے ہماری عدلیہ کا کردار منسٹر کا بیٹا شاہ رخ جتوئی دن دیہاڑے قتل کیا اور جیل سے رہائی کے وقتVکا نشان بناتے ہوئے نکلا اس نے پڑوس کے لڑکے کو اپنی بہن کو چھیڑنے کی شکایت شوٹ کیا تھا۔
٭سیاستدان کا بیٹا مصطفٰے کانجونے سڑک پر زین کو قتل کیا اور رہا کردیا گیا۔
٭یوسف رضا گیلانی نے قافلے کے ساتھ آنے والے طاہر ملک کو روند ڈالا آزاد گھوم رہا ہے۔
٭اچکزئی نے اپنی گاڑی پولیس اہلکار پرچڑھا کر اسے مار دیا اور سیاست کر رہا ہے۔
٭ماڈل ٹاﺅن میں14افراد کے قاتل پولیس والے آزاد گھوم رہے ہیں۔
٭بلدیہ ٹاﺅن کراچی میں260بے گناہوں کو بند کرکے آگ لگا کر بھون ڈالا۔JITکا فیصلہ محفوظ اس ماہ کے آخر میں سنایا جائیگا،کسی کو پھانسی نہیں ہوگی۔
٭ڈاکٹر عاصم نے1479ارب کی کرنسی خرد برد کرنے کا اعتراف کیا اور باعزت بری۔
٭شرجیل میمن5ارب کی کرنسی کا خرد برد کرنے والا وطن واپسی پر سونے کا تاج پہنایا
٭ساہیوال میں پولیس کاﺅنٹر میں مارے جانے والے میاں بیوی اور بچے کوئی ملزم نہیں
٭قندیل بلوچ کا قاتل اسکے بھائی کی جگہ مفتی قوی کو ٹہرایا گیا سزا ہوگئی۔
٭اسلامیات کا کالج پروفیسر جیسے اقرارالحسن نے ویڈیو کے ثبوت کے ساتھ لڑکیوں کے ساتھ زنا کا مرتکب ٹہرایا گیا صرف استعفےٰ دے کر غائب ہوگیا۔
بس ایک کیس میں قصور کی دس سالہ زینب کے قاتل اور زنا بالجبر کے مرتکب مجرم کو دوسرے بااثر رسوخ کے لوگوں کو بچانے کے لیے پھانسی دی گئی اور پچھلے ہفتہ جمعرات کی شب فرانس سے آئی خاتون کو جو گوجراں والا موٹروے پر کار میں پٹرول ختم ہونے پر مدد کی منتظر تھی انسان نما حیوانوں نے اسکے تین بچوں کے سامنے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔وزیراعلیٰ اور پولیس کامحکمہ دن رات چوبیس گھنٹے مجرموں کی تلاش میں نکل گیا لمحہ لمحہ کی خبریں میڈیا کو پہنچاتا رہا اور پورا پاکستان چند گھنٹوں میں مجرموں کے نام اور ان کی حرکات جان چکا تھا۔میڈیا نے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کا کام کیا اور ایک مجرم عابد علی فرار ہوکر روپوش ہوگیا۔تلاش جاری ہے وزیراعلیٰ نے میڈیا پر آکر کہا ”دیکھا ہم نے24گھنٹے میں مجرموں کو پکڑ لیااگر مجرموں کی تلاش کو خفیہ رکھا جانا تو یہ معمہ دوسرے دن حل ہوجانا تھا لیکن شاید پولیس بزدار صاحب کی حکومت کو ناکارہ بنانے کے درپے ہے۔
ہم یہ ہی کہےں گے زنا بالجبر کے حادثات وہیں زیادہ ہوتے ہیں جہاں سزا نہ ہونے کے برابر ہے اور زینب کے بعد پھانسی کے سزا کا اجراءہوچکا ہے لیکن اس پر عمل گواہوں کا ہونا اور پولیس کی ایمانداری ضروری ہے اور میڈیا کو اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے شہوت دلانے والے شو، ڈرامے بند کرنا ہونگے کیا یہ ممکن ہے؟۔