شبیر گُل
ظالم م±نصفو!منصب سے توانصاف کرو
گر ھو غیرت تم میں ،زرا خوف خدا کرو
دل چاہتا ہے کہ ایوانوں کو جلا دوں،س±پریم کورٹ ،ہائیکورٹ اور عدالتوں کو جلادوں جہاں انصاف بکتا ہو۔پولیس اسٹیشن اور عوام کے تخفظ کے ادراروں کو جلا کر خاک کردوں جہاں مظلوم کی داد رسی نہ ہو جس معاشرہ میں جوڈیشری اورقانون سے اعتماد اُٹھ جائے، ایسا معاشرہ تباہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ آج دردناک،افسوسناک ،کربناک،اور اندوہناک خبر پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ ہم کس معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں۔ بچوں کو کوئی تخفظ نہیںجب مسلمان ملک اور مسلم معاشرہ میں کسی بیٹی کی عزت مخفوظ نہ ہو تو غیرت مند لوگوں کو مجبورا قانون ہاتھ میں لینا پڑتاہے۔ہم جوانی کے ایام میں اپنی بائیک پر اسکولوں کے باہر (بھونڈی) لگانے اور بیٹیوں کو تنگ کرنے والے مجاہدین کی خوب پٹائی کیا کرتے تھے۔ہاکی اور کرکٹ بیٹ سے ان مجاہدین کی مرمت کر کے بہت سکون ملتا تھا۔مذہبی جماعتوں کو ایسے اسکواڈ تشکیل دینے چاہیں جو حرامی النسل درندوں کو سرعام سزا دیا کریںکیونکہ ملک میں نہ کوئی قانون ہے نہ کسی مجرم کو سزاہے۔ پولیس ،جج اور عوام کا تخفظ کرنے والے ادارے جب مجرموں کے ساتھی ہوں تو پھر غیرت مند لوگوں کو آگے آنا چاہئے تاکہ ایسے مجرموں کو چوک میں گولی ماری جائے اور عورتوں سے ریپ کرنے والوں کونشان عبرت بنا دینا چاہئے۔قارئین !موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ انکے بچوں کے سامنے زیادتی کی گئی اگر آئی جی پولیس اور علاقہ کے ایس پی اور پولیس افسران میں غیرت ہوتی تو اس واقع پر فورا مستعفی ہو جاتے لیکن جب آفیسر حرام خور اور رشوت خور وں تو ایسے آفیسرز غیرت سے عاری پولیس کے شرمناک رویہ نے مظلوم خاتون پر ہی سوال ا±ٹھا دئیے۔اس بے انصاف معاشرہ میں عورت کو سفر کرتے وقت اسلحہ ساتھ رکھنا چائیے اگر کوئی اسطرح کا درندہ نظر آئے، فوری گولیوں سے بھون دینا چائیے ، اسلحہ سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔آج اگر ملک میں زنا پر سنگسار کی سزا کا قانون موجود ھوتا تو کسی بے غیرت جو ہمت نہ ہوتی کہ عورت چاہے رات تین بجے گھر سے نکلے تو کوئی مائی کا کال آنکھ اٹھا کر دیکھتا۔خاتون اور اس کی فیملی فرانس میں رہتے تھے۔ ان کے پاس وہاں کی نیشنیلٹی بھی تھی۔ خاتون کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آئی تھی کہ بچے یہیں پڑھیں اور یہیں کے اسلامی کلچر کے مطابق پلیں بڑھیں۔
ایک ایجنسی کے دوست کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جس وقت جائے وقوعہ پر پہنچے خاتون پولیس والوں کے آگے گڑگڑا رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ ان لوگوں کو خدا کے واسطے دے رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔ انہیں ان کے بچوں کا واسطہ دے رہی تھی کہ مجھے مار دو۔ اس کے اس مطالبے پر عمل نہیں ہوا تو اس نے دوسرا مطالبہ سامنے رکھا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ یہاں موجود سب لوگ حلف دیں کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس کے خاندان اور کسی بھی اور شخص کو اس وقوعے کے بارے میں پتہ نہ چلے۔وہ مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتی۔ یہاں موجود ایک ایس پی صاحب نے خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ یہ وقوعہ بالکل بھی ہائی لائٹ نہیں ہو گا۔
دوست کا کہنا ہے کہ خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی۔ عموما فارنزک سائنس ایجنسی والے ایسے مواقع پر وکٹم کی تصاویر لیتے ہیں۔ لیکن خاتون کی حالت ایسی افسوسناک اور دردناک تھی کہ کسی کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اسے اس کام کیلئے کہہ سکے یا تصاویر اتار سکے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر ان کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے قتل کر دو۔
خاتون شاید اسے فرانس سمجھ کر ہی رات کے اس پہر بچوں کو لے کر گوجرانولہ جانے کیلئے نکلی تھی کہ کونسا زیادہ سفر ہے۔ ایک گھنٹے میں گوجرانوالہ پہنچ جائیں گے لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ فرانس نہیں، یہ پاکستان ہے۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔آج ایک م±سلمان م±لک ( پاکستان )کا افسر کہہ رہا ہے کہ یہ (غیر م±سلم م±لک )فرانس نہیں جہاں آپ کی بیٹی بہنوں کی عزت محفوظ رہے گی۔
پاکستان کا مطلب کیا ، بد بختو!فرانس تو غیر مسلم ملک ہے تم پاکستان میں جو ایک اسلامی ملک ہے ،تحفظ فراہم نہ کر سکے،ڈوب مرنے کا مقام ہے اور وہ جو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار ہیں انھیں بھی شرم آنی چاہئے،غیر ملکی سرمایہ کاری ایسے واقعات کے بعد بھی آنی کیا ممکن ہے؟موٹر وے واقعہ….
بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کیا ماں اور بچے آئندہ آنکھ ملا سکیں گے ؟عمر بھر کیلئے انکی زندگی میں یہ زیادتی ٹھہر گئی۔کیا ہم مسلمان کہلوانے کے لائق ہیں حکومت و عدلیہ سے گزارش ہے کہ سرعام چوک میںپھانسی دی جائے۔ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور لبرل گماشتے کہاں مر گئے ہیں جو یورپ میں ک±تیا کے مرنے پر چیخ و پکار کرتے ہیں۔ ایک بیٹی کے عزت تار تار ہونے پر خاموش ہیں۔
موٹر وے پر بچوں کے سامنے گینگ ریپ کے واقعہ سے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ طوفان مچا ہے وہیں پر سزا تجویز کی جارہی ہے اور وہیں پر حکومت کے حق اور مخالفت میں بھانت بھانت کی آراءبھی پیش کی جارہی ہیں، پورا پاکستان اس واقعہ پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا ہے، واقعہ حقیقت میں افسوسناک، شرمناک اور لمحہ فکریہ ہے لیکن کہا سوشل میڈیا پر چیخ و پکار اور “آہ و فغاں” ایسے واقعات کو ختم کرسکتے ہیں یقیناً نہیں ذمہ داروں کو سرعام پھانسی کی باتیں بھی ہورہی ہیں اور بڑے یقین سے کہا جارہا ہے کہ سرعام پھانسی ایسے واقعات روک سکتی ہے ، میں اس بابت کچھ عرض کرنا چاہونگا
“ریپ کے مجرم کی وہی سزا ہونی چاہیے جو شریعت میں طے ہے مگر ایسی سزاو¿ں پر عمل کرانے والے بھی شریعت کے پابند ہونے چاہئیں اور حقائق مکمل جزئیات کے ساتھ سب کے سامنے لانے کی ضرورت ہے اگر کوئی یہ کہے کہ پرائیویسی بھی ضروری ہے تو گزشتہ تین دن سے بچہ بچہ یہ جان گیا ہے کہ ایک خاتون دو بچوں کے سامنے گینگ ریپ کا نشانہ بنی پھر کہاں رہ گئی پرائیویسی،لہٰذا تمام حقائق سامنے لائے جانے ضروری ہیں تاکہ خطاکاروں کو قرار واقعی سزا ملے۔ رہی بات کہ سرعام پھانسی سے ایسے جرائم کم ہونگے تو یہ ایک خواب تو ہوسکتا ہے مگر ایسا ہوگا نہیں ،زمانہ قدیم سے دور جدید آدم کی پہلی اولاد سے آج تک کی اولاد اس فعل سے باز آئی ہے نہ آئے گی۔ 70کے اواخر غالبا” 1978 میں ایک کمسن لڑکے پپو کے ساتھ تین افراد نے بد فعلی کے بعد اسے قتل کردیا بعد ازاں تینوں کو سرعام پھانسی دی گئی۔کیا اسکے بعد کوئی پپو بدفعلی کا نشانہ نہیں بنا کیا، کوئی منی ،ببلی ،گینگ ریپ کا شکار نہیں ہوئی،شاید یہ بھی فطرت ہے، بیشک بد فطرت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔”
عورت کو کبھی غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے اور کبھی تیزاب پھینکا جاتا ہے ، مشتاق یوسفی کاکہتا ہے کہ اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر مردوں کو قتل کرتیں تومرد صرف بیالوجی کی کتابوں میں ملتے اگر تمہاری وجہ سے باپ خودکشی کرے۔ بچیاں بے آبرو ہوں۔ بھوک سے تنگ مائیں دھاڑیں مار مار کر روئیں۔ تو ایسے حکمرانوں اور کتوں میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا۔
خدارا پاکستان کو انسانوں کے رہنے کا معاشرہ بنائیں نہ کہ جانوروں کا معاشرہ، معاشرہ اور سوسائٹی کو چکانے کے لئے تمیز، تہذیب ،غیرت اور حیاءہونا ضروری ہے،بد تہذیب، بے حیا اور بے غیرت جانوروں کو سبق سکھانے کے لئے سخت سزاو¿ں اور پھانسی کا قانون بنایا جائے،پارلیمنٹ میں بیٹھے ا±ن کتوں کو بھی پھانسی پر لٹکانا چاہئے جو پھانسی کی سزا کی مخالفت کرتے ہیں ۔
ڈی این اے ٹیسٹنگ یا ماڈرن ڈی این اے فرانزک لیباریٹری کی سہولیات ،یا سی سی ٹی وی کیمرہ کو مئیرز ٹولز اور فوٹیج کیپیبلٹی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے مجرم انجام تک نہیں پہنچ پاتے، گزشتہ دنو ںبنگلہ دیش میں زنا کے سولہ ملزموں کو سرعام پھانسی لگادی گئی جس کی بازگشت پوری دنیا میں س±نی گئی،کیا ہم ایسے کیسوں کی لیباریٹری فرانزک میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔
سید مودودی فرماتے ہیں کہ لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر اسکی سخت سزاو¿ں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں، اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط را ئے عامہ تیار کرتا ہے جس میں اچھائیاں پھولیں پھلیں اور برائیاں نہ پنپ سکیں پھر وہ ایسا معاشرتی،معاشی اور سیاسی نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے، اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے، اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو ایسے برحق نظام کو بدنام جی کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی ساری چیزوں کو نگل جاتاہے۔ قارئین کرام!
قرآن میں اللہ رب العزت نے زنا ، بدفعلی ،قتل اور چوری پر مجرموں کی سزا کو تعین کیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گھناو¿نے مجرموں کو کڑی سزا کا فرمایا ہے ۔ اسکی مخالفت اور±ان سزاو¿ں کے خلاف بھونکے والے وزیروں مشیروں کا سزاو¿ں کے خلاف بکواس دراصل دین سے بزغاوت ہے،اسمبلیوں میں بیٹھے منافقوں کو قرآن اور رسول خدا کی تجویز کردہ سزاو¿ں کو م±تشدد کہنا ایمان کا دیوالیہ پن ہے۔
ٹی وی پر ولگیریٹی ،بے حیائی نے گھر گھر کنجر خانے کھول دئیے گئے ہیں۔اخلاق باختگی کی یلغار نے اخلاقی رویوں کو تبدیل کر دیا ہے جس نے معاشرتی نظام کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ آج نہ ایسے جج رہے نہ بیوروکریٹ جو عوام کو تخفظ دے سکیں۔ قارئین کرام!
جب قرآن میں اللہ رب العزت نے ظالم مجرموں کی سزا تجویز کی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گھناو¿نے مجرموں کو کڑی سزا کا کہا ہے تو ان سزاو¿ں کے خلاف بھونکنے والے وزیروں اور اسمبلیوں میں بیٹھے منافقوں کو قرآن اور رسول خدا کی تجویز کردہ سزاو¿ں کو م±تشدد کہنا ایمان کا دیوالیہ پن ہے۔
٭٭٭