”پاکستان میں عورت مارچ“

0
412
شبیر گُل

شبیر گُل

اسلام پاک و صاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق و عادات کی تہذیب کرتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پ±رامن معاشرے کے قیام کے لئے ہواہم تدابیر کرتا ہے۔ وہ انسانی جذبات جو ہر قسم کے ہیجان سے بچا کر پاکیزہ معاشرتی زندگی کا قیام پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں اسلام نے خفاظت نظر پر زور دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ “ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں جو بھی مخفوظ رکہیں۔ یہ ان کے کئے بہت پاکیزہ ہے۔ بیشک اللہ جانتا ہے۔ جو وہ کرتے ہیں۔ اسی طرح مردوں اور عورتوں کو بھی غص بصر کا حکم دیاگیا ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے۔ ایمان والیوں سے کہہ دو اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی خفاظت کریں۔ قارئین محترم ! “بد نظری “ہی“بدکاری” کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ایک حدیث میں بد نظری کو آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان اور مسلم ممالک میں غیر ملکی پیسے پر پلنے والی این جی اوز عورت کو حقوق کی نام پر فنڈنگ کرتی ہیں۔ تاکہ مسلم ممالک میں عورت کا برقع ا±تار کر آدھے اور تنگ کپڑے پہنائے جائیں۔ان م±ٹھی بھر عورتوں کا خیال ہے کہ جو مرضی پہن کر ننگی پھریں اور ھماری طرف کوئی نہ دیکھے۔ بوائے فرینڈ بنالیں ، ناجائز بچے پیدا کرلیں اور ہمیں کوئی نہ پوچھے۔ خواتین محترم! یہ پاکستان ہے ، جو کلمے کے نام پر حاصل کیا گیا۔ کیا ہم آپ جیسے معاشرتی ناسور کو ایسے ہی بے لگام چھوڑ دیں۔ یہ نا ممکن ہے۔ یہ حقوق اور آزادی کی بات کرتی ہیں۔ پاکستان کے ہر ادارہ میں عورت آزادی سے کام کرتی ہے۔ ائیر فورس، آرمی ، پولیس، ہیلتھ اور ٹیچنگ میں ہر جگہ عورت کی عزت ہے لیکن ایس جیسی فاحشہ عورتوں کی نہیں۔ آج پارلیمنٹ میں تقریباً چالیس فیصد عورتوں کی نمائندگی ہے اور کونسے حقوق چاہیں؟ وویمن ڈے کے نام پر منا لیا۔عورت مارچ۔ ” مہذب سلوگن خود دیکھ لیں” ہر رشتہ ” جنسی بھیڑئیے کے روپ میں۔ سگا بھائی،گھر کے مرد، دادا،ماموں، بھائی کے دوست، قاری صاحب، عالم دین،پروفیسر، ٹیچر، اوبر ڈرائیور سمیت سب کو جنسی ہراسگی کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ سنا تھا کہ ورکنگ وومن کی بات ہو گی۔ یہ مارچ عورت کے حقوق کے لیے ہے۔ یہ کیسی حقوق کی جنگ ہے جو صرف اور صرف ہر معزز رشتے کو جنسی بھیڑئیے کے روپ میں دکھانے سے ہی ملنے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کلاس کی عورتوں کو بس ہراسگی ہی ملتی ہے۔ ہر رشتے اور ہر جگہ ان پر ظلم ہوتا ہے، یہ تہذیب یافتہ ننگی عورتیں شلواریں اور قمیضیں لٹکا کر کیا پیغام دینا چاہ رہی ہیں۔ جب عورت حجاب کرئے گی۔ تو کوئی مرد آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب عورت کپڑے اتارے گی تو مرد کی نگاہ ا±ٹھے گی۔جس مرد کی نگاہ عورت پر ناجائز ا±ٹھے گی تو وہ مرد اللہ ، رسول اور معاشرے کا مجرم ہے۔ برطانیہ انڈین su- continent سے چلا گیا۔ مگر اپنی ناجائز اولادیں یہیں چھوڑ گیا۔ جو لبرل ازم،سیکولرازم، ماڈرن ازم کے پروردہ گندے انڈے اسلامی معاشرہ کا ناسور ہیں۔ انگریزوں کے کتے نہلانے والے ھمارے کرپٹ سسٹم کا حصہ ہیں۔ تعلیمی سسٹم کا حصہ ہیں۔ ہر ادارے میں ان کے گماشتے اور چیلے موجود ہیں۔ جو ملک میں تعلیم و تہذیب کے نام پر سیکولرازم پھیلا کر نئی نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آٹھ مارچ کو چند طلاق یافتہ اور مادر پیدر آزاد عورتیں ،ملاو¿ں سے آزادی کا نعرہ لگاتی ہیں۔ ملاو¿ں سے آزادی کے نعرہ کا مطلب دین اسلام اور نکاح سے آزادی ہے۔ انگریزوں کی پالتو یہ چند غلیظ ک±تیاں نکاح کو نہیں مانتیں۔
یہ آزاد عورتیں کہتی ہیں کہ عورت کو ہر قسم کا کپڑا پہننے کی آزادی ہونی چاھیئے۔ یہ دو فیصد عورتیں ہم جنس پرستی کی آزادی۔زناءکی آزادی۔ ناجائز بچوں کی پیدائش چاہتی ہیں۔ یہی وہ عورتیں ہیں جو ابارشن سینٹرز بھی چلاتی ہیں۔ یہ مغربی feminism کو پاکستان میں لاناچاہتی ہیں۔ جہاں عورت بغیر نکاح کے ناجائز بچے پیدا کر کے ا±سے پیار کا نام دیتی ہے۔ ساری زندگی ناجائز بچے پال کر اس عورت ( یعنی) ماں کو اولڈ ایج ھوم میں ڈال دیا جاتا ہے۔
عورت بارہ بارہ گھنٹے کام کرتی ہے۔ ان معاشروں میں بیک وقت کئی کئی مردوں سے ڈیٹ کرتی ہے۔ جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔کیا یہ عورت کی تقدیس ہے۔ کپڑوں کو اتارنا آزادی ہے۔ ناجائز تعلقات رکھنا آزادی ہے۔
یہ بیہودہ عورتیں حقوق کی بات کرتیں ہیں۔
یعنی ناجائز تعلقات کی آزادی ، ہم جنس پرستی کی آزادی، نکاح کے بغیر تعلقات کی آزادی،باپ کو تھپڑ مارنے کی آزادی ، بھائی کو ننگا کرنے کی آزادی۔پارلیمنٹ میں ایسی آزاد اور لبرل عورتوں کو پروٹیکٹ کیا جاتا ہے۔ یہ گند ھمارے ملک میں ہی کیوں؟ہندو نے ہندوستان میں فیمنزم کو گھسنے نہیں دیا۔کیا ہم ہندو سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیا ہم نے انگریز سے آزادی بے حیائی اپنانے کے لئے لی تھی۔کیا ہم نے ھندوستان سے آزادی اپنے کپڑے اتارنے کے کئے لی تھی۔یہ دو فیصد عورتیں اپنے کپڑے ہر ایک کے سامنے اتارنے کو آزادی کہتی ہیں۔ داڑھی کو گالی دیتی ہیں۔ ہر نبی کی س±نت داڑھی تھی۔ یہ ننگی عورتیں کہتی ہیں کہ ہم داڑھی کے بغیر نظام لائینگی۔یہ آزاد خیال بے حیاء عورتیں اور انگریزوں کے پالتو پاکستانی بیوروکریٹک سسٹم میں گ±ھس چکے ہیں۔ چند فاحشہ عورتیں شلواریں اور قمیضیں لٹکا کر معاشرہ کو کیا پیغام دینا چاہ رہی ہیں۔ یہ باپ، بھائی اور تمام قانونی رشتوں کی باغی ہیں۔ ان دو فیصد عورتوں کو میڈیا نے بہت پروموٹ کیا ہے۔ ٹی وی پر جیلٹ بلیڈ کی ایڈ میں عورت ، مرد کی پتلون کی ایڈ میں عورت،پینٹ اور ٹائلوں کی ایڈ میں عورت، لکس صابن ہویا جوس۔ عورت کو ہر جگہ دکھا کر کیا ثابت کیا جا رہا ہے۔ کہ ہم بہت ترقی یافتہ قوم ہیں۔ ترقی کے نام پر عورت کو ماڈل بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ امریکن اور یورپی معاشرہ میں عورت کئی مردوں سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔
ھمارے ہاں اسی نسل کی چند عورتیں ناجائز بچے پیدا کرناچاہتی ہیں۔
بغیر شادی کے مرد سے بوائے فرینڈ جیسے تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔
یہی وہ عورتیں ہیں جنکے ناجائز بچے اکثر کوڑے کے ڈھیر پر ملتے ہیں۔
کیا یہ عورتیں ایسا معاشرہ چاہتی ہیں۔ جہاں ایک فاحشہ کے پیچھے کئی مرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔
ویسڑن معاشرہ میں عورت ناجائز بچہ پیدا کرتی ہے۔ ا±سے پالنے کے لئے کءجابز کرتی ہے۔ یہ ناجائز بچہ جوان ھوکر اسی ماں کو سینئر ھوم اور شیلٹر ھوم کے س±پرد کر آتا ہے۔
ھماری معاشرت کے چند ناجائز بچوں نے نیویارک کے ماحول کو پراگندہ کردیا ہے۔ ہر ایک کی عزت اچھالنا، بلیک میلنگ کرنا، شرکاء کے خلاف مغلظات بکنا اور لکھنا۔ یہ چند لوگ جن کی وجہ سے کئی گھر بے سکون ھوئے۔یہ اپنے ماں باپ کی ناجائز اولادیں ہیں۔ جن کے باپ اور مائیں انکو اپنی اولاد نہیں مانتیں۔
شریف ماں کی جائز اولاد کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتی۔ ان ناجائز بچوں نے نیویارک شہر کے ہر شریف اور معزز شخص کو تنگ کیا ہے۔
جب کبھی کوئی اچھا کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کسی نیک ماں کا بیٹا ہے۔
لوگوں کو ناجائز تنگ کرنے والے کو حرامزادہ بولا جاتا ہے۔ نیویارک میں بھی چار حرامزادوں نے ڈاکٹر اعجاز سے لیکر کرنل مقبول ، مجیب لودھی سے لیکر معوذ صدیقی۔ اور سلیم ملک سے لیکر طاہر میاں تک۔ کئی شرفاء کی پگڑیاں اچھالیں۔ان چاروں خبیثوں کی فیملی بیک گراو¿نڈ کو چیک کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے خون میں نجس کی ملاوٹ ہے۔ انہوں نے اجمل چوہدری سے لیکر ڈاکٹر شفیق۔ عظیم میاں سے لیکر ملک ندیم عابد اور مولاناتصدق گیلانی سے لیکر مولانا شہباز چشتی تک کسی کو نہیں چھوڑا۔۔
یہ چند بے شرم جو کبھی ختم نبوت کے جیالے بنتے ہیں اور کبھی مرزائیوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کبھی بہنوں اور بچیوں کے خلاف لکھتے ہیں اور کبھی بلیک میل کرتے ہیں جن کا محاسبہ ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here