کامل احمر
غزل کا ایک شعر ہے جو آپ مہدی حسن کی آواز میں سن چکے ہونگے۔”کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں۔اپنے اپنے غم کے فسانے ہم کو سنانے آجانے ہیں“ابھی ہم پاکستان میں سیاست کی بساط پر کھیلے جانے والے غیر اخلاقی اور غیر قانونی شو کو دیکھ کر بیٹھے ہیں کمر باندھے اور پھر یہ شعر یاد آجاتا ہے۔نہ چھیڑانے بکہت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں“ دیکھا اتوار کی شام کو گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے رنگ مین اوپراونفری انگلینڈ کے شہزادے ہیری اور انکی بیوی میگھی مارکل کو ساﺅتھ کیلی فورنیا میں انکے گھر کے لان میں لئے بیٹھی ہیں۔اوپراونفری کسی تعارف کی محتاج نہیں اور نہ ہی اب یہ شاہی جوڑا جو اب غیر شاہی جوڑا ہوچکا ہے۔غیر معروف ہے عورت کے گرد دنیا گھومتی ہے یہ آج کی بات نہیں اس سے پہلے بھی انگینڈ کے شاہی خاندان میں ایسا ہوچکا ہے۔جب 1932 میں ہیری کے پر چچا(جیسے پردادا) نے برطانیہ کے تحت کو ایک امریکن طلاق یافتہ عورت کے لئے چھوڑ دیا تھا کیونکہ یہ وہاں کے قانون کے مطابق تھا۔اور اب دل پھینک(شادی سے پہلے)شہزادے ہیری نے تاریخ دہرائی ہے۔جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ عوام کی تفریح وطبع کے لئے مواقع فراہم ہوتے رہتے ہیں۔ہمیں انگلینڈ سے ہمدردی ہے جو20ویں صدی اور اس سے پہلے دنیا پر راج کر چکے ہیں۔(سوائے تھائی لینڈ کے)اور اندھیری دنیا کو روشنی کے علاوہ بہت کچھ دے کر سمٹے بیٹھے ہیں۔شاید ہمارے نوابوں نے بھی ان ہی سے یا پھر شاہی خاندان نے نوابوں سے سیکھا ہے۔کہ شادی خاندان کے باہر نہیں ہوگی ہماری پنجابی فلموں کا بھی ایک حسن ہے۔جس میں ولن ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جو کسی کی محبوبہ ہے اور عین شادی والے دن پہنچ کر بندوق تان کر ہیرو اور اسکے باپ کو تنبیہہ کرتا ہے یہ شادی نہیں ہوسکتی بالآخر ہوجاتی ہے۔آج کل کی دنیا میں ولن کا خاتمہ ہوگیا ہے کہ لڑکیاں اور انکے والدین سمجھدار ہوگئے ہیں کہ وہ مالدار اور خوبصورت آسیالی ڈھونڈتے ہیں۔کوئی لڑکی کسی پھکڑ اور غریب لڑکے سے آنکھیں نہیں لڑاتی۔کار ہونا ضروری ہے۔سلطانہ باجی اور مومنہ داید تو کم ازکم”ہم“ کے ڈراموں میں یہ ہی دکھا رہی ہیں۔اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ میں پلی بڑھی پہلے سے شادی شدہ پھر طلاق یافتہ لڑکیTVکے سیٹ کام سیریلSUITEکی شہرت یافتہ میگھن مارکل کو بھی عشق لڑانے کا حق ہے۔اور وہ اپنے لئے یا ہیری صاحب اپنے لئےSUITEمیں مارکل کے کردار سے متاثر ہوکر(چونکہ وہ شادی شدہ خاتون ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ مزید نہ لکھیں)جو ممکن ہے انہوں نے نہ دیکھا ہو ان پر فریضتہ ہوجاتے ہیں اس میں شک نہیں کہ میگھن مارکل بہت پرکشش ہے یہ دوسری بات ہے کہ شاہی خاندان کو وہ خوبصورت نہ لگی ہو کہ سب کے سب پھیکے شلغم ہیں گورا رنگ خوبصورتی کی ضمانت ہے۔پاکستان میں لیکن تھوڑا گندمی اور اس میں سرمے کی چاشنی پسند کی جاتی اسی لئے گورے امریکن خود کو کتھی(TAN)بنانے بیج پر پڑے رہتے ہیں۔ہمیں یقین نہیں آتا کہ شاہی خاندان کے کسی ممبر نے پوچھا ہوگا یا کہا ہوگا کہ بچے کا رنگ کیا ہوگا ممکن ہے کچن یا لانڈری میں کام کرنے والی عورتوں نے کھسر پسر کی ہوگی اور یہ بات مارکل نے سن لی ہوگی وہ اس بات سے اتنا رنجیدہ اور دکھی ہوئی ہوگی کہ خودکشی کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔
یہ بھی کہ انکے کہنے پر بھی کسی نفسیاتی ڈاکٹر کو نہیں بلوایا ہوگا کہ وہ تجزیہ کرے یہ بات انگلینڈ میں نہیں وہاں نہ اتنے وکیل ہیں اور نہ ہی اس نفسیاتی امراض کے ڈاکٹرز خیال رہے مارکل میگھن نے اپنے علیحدگی اختیار کرنے والے باپ کو خط لکھا تھا جو لندن کے ٹیلائڈ اخبار نے انکی مرضی کے بغیر چھاپ دیا تھا۔اس پر پرائیویسی عام کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور اخبار والوں نے معافی کے ساتھ ہر جانہ دیا تھا۔امریکہ میں یہ بات ہوتی تو بڑا ہرجانہ دینا ہوتا اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اوپرانے اس انٹرویو کے لئے7ملین اور اسکے علاوہ انٹرویو کا کوئی بھی حصہ براڈ کاسٹ کرنے پر مزید رقم کے حقدار ہونگے۔
امریکہ کے ہر ٹی وی پر یہ ہی انٹرویو چل رہا ہے۔تنقیدیں ہو رہی ہیں نفسیات کی ماہر لندن سےBBCپر بول رہی تھیں ایک اخبار نے سرخی لگائیSO FAKE(اردو میں بناوٹی یا غلط بیانی)یہ انکے بڑے بھائی کی بیوی کیٹ مڈلٹن کے نام سے لگا دی۔یہاں بھی افسوں، شراب خانوں، دوکانوں اور سب وے میں بیٹھے لوگ کر رہے تھے یہ ہی باتیں کچھ کو ہمدردی تھی مارکل سے وہ بے حد متاثر تھے مارکل شو میں روتے روتے رہ گئی تھیں انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ شاہی محل میں قیدی تھیں وہ بھول رہی ہیں کہ ایسا کرنے میں ایسا تو لگے گا کہ شاہی خاندان کی کوئی پرم پرا ہے۔اگر میگھن مارکل نے لیڈی ڈائنا کے حادثہ میں موت کی خبر کو یاد رکھا ہوتا اور وہ گوگل کرکے دیکھ لیتیں کہ شاہی خاندان میں شادی کے بعد کس طرح کی زندگی ہوگی تو شاید ایسا نہ کرتیں۔لیکن کیوں نہ کرتیں امریکہ میں میگھن نے بہت کچھ سیکھا ہے وہ کوئی چترال کے گاﺅں کی لڑکی نہیں یہاں ہالی وڈ کی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔اور اپنے ڈرامے میں”I AM NOT WEARINGUNDERWEAR”جیسے ڈائیلاگ سیریل کے ہیرو سے بولے ہیں ہم میگھن کو شاباشی دینگے اتنا بولڈ کردار کرنے پر جو دیکھنے والوں کے لئے تفریح فراہم کرتا رہا سات سال تک میگھن اب پبلک کی نظر میں ایک مشہور شخصیت بن گئی ہیں ان کے مقابلے پر نہیں ہیری بے چارہ ہے ظاہر ہے وہ ایک خوبصورت بیوی اور بچے کا باپ ہے اور دوسری بچی کی پیدائش کا منتظر ہو اس کا اپنی بیوی سے پیار ہونا فطری ہے۔اور جب پریس آگے پیچھے ہو اور اپنا پیٹ بھرنے کے لئے انہیں ذریعہ مل جائے تو بلھے بلھے ہی ہونا ہے۔ہم میگھن کی اس بات سے کہ شاہی خاندان کے ممبروں نے بچے کا رنگ پوچھا تھا یہاں کے عوام کو اکسانے کا بہانہ ہے کہ ان سے ہمدردی ہوجائے سب جانتے ہیں بچہ اپنے باپ پر جاتا ہے۔رنگ اور شکل میں اکثریت کا یہ ہی کہنا ہے خود میگھن مارکل سیاہ فام نہیں ہے وہ پرکشش رنگ رکھتی ہے جس کی تمنا ہر لڑکی کرتی ہے اور امریکن چاہتا ہے پھر شاہی خاندان کا کون ایسا بےوقوف انسان تھا۔
یقیناً ملکہ اور ان کے شوہر میگھن سے یہ توقع کرتے ہونگے کہ وہ خاندانی رسم و رواج اور شاہانہ زندگی کو اپنائے ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ ہیری چاہے یا نہ چاہے میگھن مارکل کو گھٹن محسوس ہوتی ہوگی کہ وہ اس کی عادی نہیں تھی۔بہت بالغ تھی جب شادی ہوئی اور ہمیں شاہی خاندان سے ہمدردی ہے۔کوئی توقع نہ کرے کہ شاہی محل سے اس انٹرویو کا جواب ملے گا۔البتہ پرنس ہیری آنے والے وقت میں افسوس کریگا جب وہ خود کو تنہا پائے گا۔میگھن مارکل کے ہمراہ۔
٭٭٭