نقوش سے جوہر تک ادبی رسائل کی تاریخ!!!

0
159
کامل احمر

کامل احمر

ہر چند کہ سوشل میڈیا نے پرنٹنگ میڈیا کو تقریباً تاریخ بنا دیا ہے لیکن ادبی رسائل وسائل کے اس ڈوبتے تالاب میں جو کبھی سمندر تھا کچھ لوگ کشتی چلا رہے ہیں۔اور شمالی امریکہ سے ایک صحافی،ادبی اور سوشل اور پاکستانی حلقے میں مقبول عارف افضال عثمانی نے ایک سہ ماہی رسالہ”جوہر“نکال کر تاریخ بنائی ہے۔جسے ہم دو معنوں میں لینگے ایک وہ جو تاریخ بن گئے اور دوسرے جو تاریخ بنا رہے ہیں۔دنیا میں ہر ملک میں پرنٹنگ میڈیا زوال کا شکار ہے اورپاکستان اس سے نہیں بچا ہے۔اندازہ کریں جب ٹائم(TIME) میگزین سکٹر کر اپنی اشاعت ہفتہ وار سے دو ہفتہ وار کردے تو یقین آجاتا ہے۔کہ مستقبل شاندار نہیں اردو کوزوال ہے کہ یہ زبان اب بولنے کی حد تک رہ گئی ہے۔لکھنے پڑھنے کا شوق جب ہماری نسل کو نہیں رہا تو آنے والی نسلیں اسے کیوںاپنائینگی۔اور یہ ایک بڑی ہمت کی بات ہے کہ اس اندیشے کے ہوتے ہوئے کہ اردو ادب کا مستقبل کیا ہوگا۔جوہر کی اشاعت اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔جس پر ہم عثمانی صاحب کو مبارکباد کے ساتھ خوش آمدید کہینگے کہ ڈٹے رہو لیکن ایک اخبار (جو یہاں مفت دستیاب ہے)اور رسالے کو چلانے کے لئے مالی سپورٹ ایک آکسیجن ہے جو صاحب ذوق لوگ عموماً بزنس اور بڑے پیشے سے جڑے لوگ کرتے ہیں۔ہم یہاں ایسے ہی یا ذوق شخص کی مثال دیتے چلیں کہ جن کے پانچ بزنس ہیں لیکن وہ78ڈالر کا اشتہار دینے سے بزنس میں منافع کا رونا کو بہانہ بنا کر مجبوری ظاہر کرتے ہیں۔تو اور بھی ہمیں خوف آتا ہے کہ آنے والی نسلیں اردو پڑھنے سے کتنی دور جارہی ہیں۔ہر چند کہ ہم بزنس مین نہیں لیکن پاکستان سے شائع ہونے والی دو رسالوں”چہار سو“ جو راولپنڈی سے نکلتا ہے اور سہ ماہی ”سیپ“کو تھوڑا بہت دامے دامے اپنے دوست مشیر طالب کے ساتھ مل کر سوکھی زمین پرقطرہ ڈالا ہے۔رسالہ نکالنا کوئی آسان کام نہیں لیکن40اور ستر کی دہائی میں یہ کام آسان تھا ،مالی معاونت کے اعتبار سے”سیپ“کے نسیم درانی نے کئی دہائیوں کے بعد”سیپ“ کی اشاعت سہ ماہی سے چھ ماہی اور اب سال میںایک ہی اشاعت کرنے کا اعلان کر رہے۔لاہور سے نکلنے والے نقوش، فنوں اور ادب لطیف جوسہ ماہی تھے۔اور80کی دہائی تک عروج تھا اب صرف نقوش نے لاہور نمبر کو دوبارہ شائع کرکے تاریخ یاد دلائی ہے جسے ہماری دوسری جنریشن بھول چکی ہے۔اس میںحکومت کی سرد مہری کے علاوہ اشرفیہ کی سوچ ہے اور انگریزی اسکولوں کی بھرمار جہاں انگریزی بول کر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔سہ ماہی رسالوں میں سب سے پہلے محمد طفیل صاحب نے لاہور سے نقوش نکال کر تاریخ لکھی تھی جس کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی اور حاجرہ مسرور تھیںجس کا انتظار ہرادبی گھرانے میں ہوتا تھا۔1948ءسے شائع ہونے والے اس سہ ماہی نے ایک تاریخ بنائی تھی اس پر منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی اشاعت پر مقدمہ بھی چلا تھا مقدمہ سے چھٹکارا پانے کے بعد یہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوگیا۔اور1984ءمیں بند ہوگیا۔اور اسکے ساتھ ہی،فنون اور ادب لطیف نے دم توڑ دیالیکن کراچی سے نسیم درانی نے ڈٹ کر ”سیپ“کوزندہ رکھا اسکی ایک خاص بات ٹائٹل تھا جو آذر زوبی کے بُرش کا کرشمہ تھا۔
ٹائٹل کے ذکر سے ہمیں دہلی اور پھر نیو دہلی سے شائع ہونے والے ادبی اور فلمی ماہانہ رسالے کے ٹائٹل اور اندرونی صفحات پر افسانوں اور شاعری کے ساتھ ان پر بنائے گئے خوبصورت نقش ذہن میں آتے ہیں جو وہاں کے آرٹسٹ اندر جیت کا کمال تھا۔شمع دہلی نے بھی فلمی دنیا کے قصے کہانیوں اور فنکاروں کی تصاویر کے ساتھ قرة العین حیدر، جیلانی بانو، انتصار حسین، ہاجرہ مسرور، خدیجہ،کرشن چندر اور مشہور شعراءکی تخلیقات کو صفحات کی زینت بنایا تھا اور اسکی اشاعت ایک ملین(سو ہزار)تک پہنچی تھی لیکن افسوس1939سے شائع ہونے والا رسالہ بھی بدلتے زمانے اور ہندی پروری کی زد میں آکر بند ہوگیا ، قرة العین حیدر ایسی ادبی شخصیت نے سوگ منایا کہ ادبی رسالے ایک کے بعد ایک ختم ہو رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ بمبئی سے نکلنے والے ماہانہ رسالے”شاعر“ جس کا اجرائ1930میں مشہور مشاعر، نقاد اور مقالہ نگار مسماب اکبر آبادی نے کیا تھا اپنی اشاعت کے91ویں سال میں ہے ہندوستان میں اسکی معاونت(مالی)ادب اور شاعری سے وابستہ حضرات کے علاوہ حکومت ہند بھی کرتی ہے ،شمالی امریکہ، لندن سے بھی حضرات اس کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ایسا ہی”چہار سو“ کے ساتھ ہے اور یہ ضروری ہے کشا مشکل کام ہے اس کی اشاعت اور وہاں سے یہاں لانا اور لوگوں تک پہچانا۔
عارف افضال عثمانی نت نئے کام کرتے ہیں ادیبوں اورشعراءکو جگائے رہتے ہیں بہت عرصہ تک وہ اردو ہفتہ روزہ”ایشیا ٹریبون“ نکالتے رہے ہیں لیکن یہ اخبار بھی بزنس اور اردو طبقے کی غیر دلچسپی اور سرد مہری کا شکار ہوگیا۔
اور اب ”جوہر“انٹرنیشنل کے نام سے اکتوبر2020میں انہوں نے خوبصورت سہ ماہی کا آغاز کیا ہے ہم اس کے لئے انکے علاوہ معاونت کرنے والے حضرات اور رسالے کو اشتہار فراہم کرنے والے اداروں کو بھی مبارکباد اور شکریہ کا مستحق سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاتھوں میں دو شمارے ہیں اور وعدہ کے مطابق دوسرا شمارہ کافی تبدیلیوں کے بعد جنوری میں دیدہ زیب کاغذ اور آرٹ کارڈ کے خوبصورت کور کے ساتھ ہے لیکن ایک بات کی کمی محسوس ہوتی ہے کہ ٹائٹل کو کچھ رنگوں کے ساتھ کسی آرٹسٹ سے بنوایا جاتا۔پہلا شمارہ جس کے ٹائٹل پر جوہر سعیدی جیسے بڑے شاعر کے علاوہ مشہور شاعر سلیمان خطیب نمایاں ہیں۔
میگزین میں شمالی امریکہ کی مشہور ادبی ہستیوںکو نمایاں جگہ دی گئی ہے اور انکا تعاون حاصل ہے جن میں عتیق صدیقی، جمیل عثمان، احتشام رضا کاظمی طاہر حنفی شامل ہیں۔حمد اور نعت سے شروعات ہونے والے اس اشو میں بہت سے جانے پہچانے نام میں تعارف ہیں۔غزلیں اور افسانوں کے علاوہ نظموں کا حصہ بھی بھرپور ہے۔کہنے کا مقصد یہ کہ ادب اور شاعری کی بہتر نمائندگی ہے دوسرے شمارے میں جو تازہ شمارہ ہے تھوڑی سی تبدیلیاں ہیںکہ معاون مدیرہ کا اضافہ ہے زرین یاسمین جو ادبی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں اور عرصہ سے ادبی خدمات بھی دیتی رہی ہیں انکے شوہر یاسین صاحب معاون رہے ہیں مجلس مشاورت میں وہ ہی جانے پہچانے نام ہیں۔جن کی مشاورت میں ہمیں”جوہر“کا مستقبل تانباک نظر آتا ہے۔عارف افضال عثمانی کو ٹائیٹل پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ سوڈالر سالانہ چار شماروں کی قیمت عمررسیدہ ادیب، اور شعراءکے علاوہ ہم ایسے کئی حضرات کے لئے تھوڑی زیادہ ہے جو پیشہ سے ڈاکٹر یا بزنس مین نہیں ہیں۔میگزین میں مہنگا کاغذ لگایا گیا ہے جو ایک رسالے کے لئے ضروری نہیں کتابت اور طباعت نہایت جازب نظر ہے۔فہرست کا صفحات دیدہ زیب ہیں۔آرٹ کارڈ جو کور پر استعمال ہوا ہے اس نے یقیناً رسالے کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔رسالے کو جدید پلاٹ پر مجلد کیا گیا ہے۔ان ساری چیزوں کے لئے عارف افضال عثمانی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔رسالہ پاکستان میں چھپ کر یہاں آنے تک کافی مہنگا پڑتا ہے یہ انکے سوچنے کی بات ہے کہ اسے سو کی بجائے پچاس ڈالر کیسے بنایا جائے اندر صفحات پر نئے اور پرانے لکھاریوں اور شعراءکے طبع زاد اورغیر طبع زاد فن پارے ہیں۔جن کے نام گنوانا ممکن نہیں نیوز پاکستان”جوہر“ کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here