ماجد جرال
اپوزیشن کی پی ڈی ایم تحریک پر حکومتی ارکان اکثر نعرے لگاتے تھے کہ یہ اپنی موت آپ مر جائے گی گی، اس کے بنیادی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا نظریاتی اختلاف ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین مولانا فضل الرحمن کو سربراہ بننے کے بعد اس تحریک کی زندگی کے دعوے اس لئے کر رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں شاید دونوں جماعتیں اپنے اپنے قول و فعل کو نبھانے کی پوری کوشش کریں۔اگر آپ ایک نظر مولانا فضل الرحمن پر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قوتوں کو سڑک پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جب بھی ضرورت پڑے گی تو اس میں مولانا فضل الرحمن کا کلیدی کردار ہوگا۔ پی ڈی ایم اسی تناظر میں دونوں جماعتوں کے لیے اپنے قول و فعل کے لیے بڑا اہم فورم تھا۔۔۔ کیوں کہ دونوں جماعتیں اس تحریک کے بنیادی مقصد کو اگر ہار بھی جاتی تو ایک ایسی سیاسی قوت کو جیت لیتی جو کسی وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بڑا چیلنج کھڑا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اس اہلیت سے مراد اس کے کارکنان ہیں۔ جو کسی بھی موسم میں کسی بھی حالت میں سڑکوں پر کئی کئی دن پروا نہیں کرتے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیے پی ڈی ایم تحریک میں سے پاکستان پیپلز پارٹی یا نون لیگ کو توڑنا بڑا مقصد نہیں تھا، وہ مولانا فضل الرحمن کو کسی نہ کسی صورت کمزور کرنا چاہتے ہیں، جب تک مولانا فضل الرحمان اس تحریک میں موجود ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کی موجود ہیں یا غیر موجودگی سے اس تحریک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن سیاست کرتے کرتے اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں پر انھیں اپنا مستقبل صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس تحریک کی کامیابی ناکامی تو بعد کی بات ہے لیکن اسی فورم سے مولانا فضل الرحمان بھی اپنا مستقبل واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب دونوں جماعتوں کے لئے اس سیاسی قوت کو جیتنا بھی بڑا اہم تھا، آپ کا کی صورتحال دیکھی جائے تو مسلم لیگ نون مولانا فضل الرحمان کو جیتنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ جس کا واضح طور پر مطلب ہے کہ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم تحریک سے الگ ہو جائے، تو حکومت کے لیے مستقبل میں لانگ مارچ کے خطرات کم نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے بغیر بھی یہ لانگ مارچ اتنا ہی طاقتور ہوگا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی بات ہے تو پیپلز پارٹی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرنا درحقیقت نون لیگ کے ساتھ اپنا مستقبل جوڑنا ہے۔
آپ کو مستقبل میں شاید یہ سن کر کبھی حیرت ہوں کہ صدر مملکت مولانا فضل الرحمن فلاں فلاں شخصیات کے لیے قومی اعزازات کا اعلان کیا ہے۔
٭٭٭