پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پاکستان کی عوام کو ایک اور جھٹکا لگا جب پی ڈی ایم کے کامیاب اتحاد میں اس وقت دراڑ پڑ گئی جب سابق صدر آصف زرداری نے مطالبہ کردیا کہ نوازشریف واپس پاکستان آکر موجودہ نظام کے خلاف شروع کی جانے والی تحریک میں حصہ لیں۔اس وقت تک اجتماعی استعفیٰ کی تجویز کو بھی موخر کر دینے کی بات کردی۔اتحاد کے ماضی قریب میں کئے جانے والے کئی اجلاس میں پی پی پی کی طرف سے اس قسم کے مطالبات کبھی بھی نہیں کئے گئے۔مسلم لیگ(ن) کو تو حیرت ہونی ہی تھی لیکن مولانا فضل الرحمان جن کے آصف زرداری کے ساتھ گھرسے مراسم رہے ہیں۔نہ صرف خفا ہوئے بلکہ اچانک سے اُٹھ کر چلے گئے کیونکہ انہیں اعتراض یہ بھی ہوا کہ بند کمرے میں سابق صدر کی تقریر کے دوران خبروں میں انکی تقریر کے اہم نکات سنائے جا رہے تھے جسکا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ جان بوجھ کر پی پی پی نے کروائی تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ ان مطالبات سے پیچھے ہٹنا نہیں۔شروع ہی سے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) میں بداعتمادی کی فضا موجود تھی اور اس کے لئے صرف پی پی پی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔مسلم لیگ(ن) کا کردار بھی ماضی میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے بعد بھی قابل رشک نہیں رہا۔جب یہ جماعتیں اپوزیشن میں ہوتیں ہیں تو انقلاب پہنچاتی ہیں اور اقتدار میںآکر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے کو ایک اعزاز سمجھتی ہیں۔پاکستان کی عوام بھی ان سیاسی قلا بازیوں سے تنگ آکر اب مایوس ہونے لگی ہیں یہی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھی ہے کہ عوام مجموعی طورپر سیاست قیادت سے تنگ آجائے تاکہ وہ اپنے پسندیدہ لوگوںکے ذریعے براہ راست یا بلاواسطہ خواہش بھی اس بلی کے خواب کی طرح سے جس میںوہ چاہتی ہے کہ محلے کی تمام بلیاں مر جائیں تاکہ وہ اکیلی چوہوں کا شکار کرسکے۔دوسری طرف عمران خان نے بھی لگتا ہے کہ وردی پہن لی ہے اور انکے رویے اور باتوں میں آمریت جھلکنا شروع ہوگئی ہے۔حیرتناک بات یہ ہے کہ انکے مداح بھی عمران خان کے موجودہ روپ سے خوش ہو رہے ہیں۔مریم نواز کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔بلاول بھٹو زرداری اپنے نام کی طرح دو مخالف انداز سیاست میں بٹ گئے ہیں۔وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ والدہ اور نانا کا انداز سیاست تو جان لیوا ہوسکتا ہے۔والد کی مفاہمت اور مل جل کر سیاسی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں ہی عافیت ہے۔پاکستان کی عوام مریم نواز اور بلاول بھٹو کو دیکھ کر نوجوان باہمت قیادت کو دیکھ کر کافی پرامید ہوگئے تھے۔مریم نواز کو تو والد نے کافی حد تک سیاسی فیصلے کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔لیکن بلاول بھٹو ابھی تک اپنے والد اور پھپھو جان کے اثرورسوخ میں انکے فیصلوں یا آشیرباد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے اور یہی طرز عمل انکی سیاست اور سیاسی شخصیت کی تشکیل میں رکاوٹ بن بیٹھا ہے۔بلاول بھٹو کی تربیت کا کافی حصہ والدہ کے زیراثر رہا ہے۔لیکن عملی سیاست میں چیئرمین پی پی پی ہونے کے باوجود انہیں اپنے والد متحرم جو کہ پارٹی کے کو چیئرمین ہیں انکے فیصلوں پر چلنا پڑ رہا ہے جوکہ اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کی سیاسی بصیرت کے مداح ہیں اور انہیں کے مشوروں پر عمل پیرا ہیں۔یاد رہے کہ پی پی پی کی تنظیمیں امور جب سے فریال تالپور کے حوالے ہوئے ہیں۔پنجاب سے پارٹی کا مکمل صفایا ہوچکا ہے۔اب سندھ میں بھی ناقص قیادت اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی نے عوام کو بیزار کردیا ہے۔ابھی حال ہی میں نیب کے مقدمات میں فریال تالپور کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی پی پی پی نے اپنے ماضی کے ساتھ بغاوت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے جمہوری اتحاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر آمرانہ نظام اور سوچ کی بلاواسطہ حمایت کر دی ہے اور یہ فیصلہ پی پی پی کے لئے بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
٭٭٭