پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پاکستان کی عوام نے تبدیلی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کردیا اور ضمنی انتخابات میں آٹھ نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو زبردست شکست کا سامنا ہوا ڈسکہ والی شکست پر کھلی دھاندلی کرکے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا صرف پختونخواہ کی ایک نشست پر جیت سکے۔عوام نے پی ٹی آئی کو پیغام دے دیا ہے کہ ایک ہی سورخ سے دوبارہ ڈسے جانے سے انکار کردیا۔ڈسکہ کا فیصلہ فائنل اگر عدالتوں نے انصاف پر کیا تو وہ بھی پی ٹی آئی کے حوالے نہیں ہوگا۔آئین اور مروجہ قوانین کو جس طرح ایوان میں ڈاکٹر علوی صدر صاحب کی حیثیت سے کرنے پر تلے ہوئے ہیںاور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس دھاندلی پر انکا ساتھ دینا ہے تو پھر آئین کی کتاب کو جلا دیں اور صدر صاحب کی جو مرضی کریں کرتے رہیں ،اسی لیے ہم کہتے تھے کہ مشرف کو پھانسی دو اگر آئین کی اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے سے تو پھانسیاں دینی پڑینگی۔جب تک آئین کی پامالی کے مرتکب ایک طاقتور جنرل کو پھانسی نہیں دی جائیگی پھر ایرا غیرا آئین کو ایسے پیروں تلے روندتا رہے گا۔اب بھی اگر پاکستان کو بچانا ہے تو75 کے آئین کو بچاﺅ اور بلوچستان کی محرومی کو سیاسی مذاکرات سے حل کرو، فوجی حل مستقل حل نہیں ہوتا۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ عمران خان کے خلاف جو تحریک چلنی ہے وہ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک سے بھی زیادہ زور دار ہوگی۔ایوب خان نے تو پھر بھی10/11سال حکومت کرلی۔عمران خان کے خلاف تو تین سال میں عوامی نفرت عروج کو پہنچ گئی ہے لیکن عمران خان کو ملک سے بھاگنے کی مہلت نہیں ملنی ہے بلکہ وزیراعظم ہاﺅس یا بنی گالہ میں ہی انکی آخری اسوہ پورے ہونگے۔جتنی غیرت کی باتیں موصوف کرتے تھے۔انہوں نے تو ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا کردی ہے۔عوام آج عمران خان سے سوال کر رہی ہے کہ کب تک جرنیلوں کے پیچھے پیچھے رہو گے۔جب جرنیلوں کی پگڑی اچھلنے لگی اس دن انہوں نے تمہیں عوام کے حوالے کردینا ہے پھر عوام بنی گالہ پر دھاوا بولے گی اور انجام خراب ہوگا کراچی، لاہور، پشاور اور ملتان کی غریب عوام نے تو جھولیاں اٹھا کر جو بددعائیں عمران کو دی ہیںجو عورتوں بوڑھوں نے رو رو کر بددعائیں کی ہیں۔اسی بدعاﺅں سے تو سرسبز درخت بھی سوکھ جاتے ہیں۔تو پہلے خزاں رسیدہ انسان ہو خدا کا خوف کرو عمران فرعون بننے کی کوشش میں تمہارا حشر بھی فرعون جیسا ہی ہوگا۔آٹھ نشستوں میں کل ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے جبکہ پی ٹی ایم کو تین لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیںجوکہ ایک لاکھ پیغام ہے جہاں تک تحریک انصاف کا یہ موقف کے پی ڈی ایم گیارہ جماعتوں کا اتحادہے تو انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ ان کے ساتھ یہ سارے گندے انڈے بھی تو ہیں۔چودھری، ترین، لغاری، شیدا ٹلی، متحدہ کراچی میں پختونخواہ میں حکومت ہونے کے باوجود فردوس عاشق اعوان سیالکوٹ میں ہونے کے باوجود چینی اور آٹا مافیا کے سربراہان اور سب سے زیادہ جنرلوں کا ساتھ بھی سونے پر سہاگہ نہ بت پائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ بدبختی آگئی ہے اور عوام کی لائی ہوئی تبدیلی آگئی ہے جوکہ اصلی تبدیلی ہے۔اب اگر اس عوامی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا تو پھرعوام نے کچھ نہیں کرنا جوتیاں پیروں میں سے اتارنی ہیں اور کھلے عام پیٹنا ہے۔حکمرانوں کو یہ سمجھ لے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی ماضی میں تو آپکی کارکردگی خاص نہیں تھی لیکن اب اگر عوام کے کام نہیں کئے تو پھر آپکی بھی خیر نہیں کیونکہ اب عوام اک گئی ہے۔ان جماعتوں کے اندر بھی تبدیلی آنی چاہئے یہ شریفوں اور زرداریوں کی پارٹیاں نہیں چل سکیں گی۔جب تک عوام اپنی پارٹی کارکنوں کے معرفت اختیارات نہیں دینگے۔کہ وہ اپنے ایم پی اے اور ایم این اے کی سلیکشن پر اثرانداز ہوںورنہ پھر نہ تو یہ خاندان رہیں گے نہ ہی انکی موروثی سیاسی جماعتیں!!جمہوریت جماعتوں کے اندر موجود ہو گی تو ملک میں جمہوریت پروان چڑھے گی ورنہ عمران جیسے جعلی پیر آکر اس ملک کی تقدیر سے کھیلتے رہیں گے۔
٭٭٭