خواتین کا احترام !!!

0
408
مجیب ایس لودھی

 

مجیب ایس لودھی، نیویارک

حضور پاک ﷺ نے جب دنیا میں دین اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اس جہالت کے دور میں خواتین کو عزت دینے سے آغاز کیا ، وہ زمانہ تھا جب کفار بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے ، دین اسلام میں سب سے زیادہ ماں کی عزت و احترام پرزور دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسا نہ ہوگا جسے اپنی ماں سے پیار نہ ہو ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپ و امریکہ میں عورت کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی لیکن اس کے احترام کیلئے سال میں صرف ایک دن مخصوص کر دیاگیا ، امریکہ بھر میں عورت کے اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گھریلو ناچاقی میں اگر عورت پولیس کو کال کر دے تو پولیس خاوند کو بغیر کسی سوال جواب کے جیل میں ڈال دیتی ہے ، وہاں اس کے حق کو عورت اکثر ناجائز بھی استعمال کرتی نظر آتی ہے جس کے جواب میں بھی قانون کا بنانا ضروری ہے لیکن اکثر خواتین کے اندر کا شیطان اپنے حقوق کی آڑ میں دوسروں کے غلط مشوروں پر اپنے گھر کو تباہ کردیتا ہے ، میں نے کئی جنت نذیر گھروںکو دوزخ بنتے دیکھا ہے ، صرف نیویارک میں کچھ شیطان نما عورتوں کی وجہ سے گھر برباد ہو چکے ہیں ، اس لیے عورت قابل احترام اپنی جگہ لیکن قانون کو مساوی رکھنا بھی ضروری ہے ، چند خواتین کی تنظیموں کو جانتا ہوں جو خواتین مارچ کے حوالے سے ہر سال ایک آدھ تقریب کے اہتمام کرتی ہیں اور ان میں سے چند ایسی خواتین کو ایوارڈسے نواز دیتی ہیں جن ناموں کو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا ہوتا ہے ، اس بار بھی آٹھ مارچ سے پہلے اور بعد میں چند ایک تقریبات ہوئیں سوائے چند کہ اپنی من پسند خواتین کو ایوارڈز دیئے گئے ، کسی معیاریا کارکردگی کو سامنے نہیں رکھا گیا ، اسی طرح پاکستان میں جس طرح ”خواتین مارچ“ میں خواتین کے ڈانس اور ہلڑ بازی کو جلوس میں سب سے آگے رکھا گیا وہ سخت باعث شرم ہے ،انٹرنیٹ پر پھیلی عورت مارچ کی تصاویر اور پوسٹرز کی دھوم ابھی تک مچی ہوئی ہے،پوسٹرز کے حوالے سے تین بیانئے زیر بحث ہیں۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ یہ پوسٹرز خواتین کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد کے لئے ضروری تھے کیونکہ معاشرے کے مرد نے نہ صرف خواتین کے حقوق سلب کر رکھے ہیں بلکہ خواتین کو روزمرہ کی گفتگو میں جن بے باک اور قابل اعتراض لفظوں سے پکارا جاتا ہے یہ سارے الفاظ ان کا عکس ہیں ، دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ مارچ کرنے والی یہ ساری خواتین ”بے حیا “ اور ”بے گھر“ ہیں۔یہ خواتین نہ صرف اپنا گھر تباہ کئے بیٹھی ہیں بلکہ اور لاکھوں خواتین کا گھر تباہ کرنے پربھی تلی ہوئی ہیں۔ تیسرا بیانیہ یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین ظلم و زیادتی کا شکار ہیں لیکن بینرز پر حقیقی مطالبات درج نہیں تھے۔خواتین کو ان بینرز پر کی گئی لفاظی کے علاوہ اپنے حقیقی مطالبات پر بھی بات کرنی چاہئے۔قطع نظر اس کے کہ یہ پوسٹرز کتنے صحیح یا غلط تھے اور اس سے خواتین کو اپنے حقوق کے بارے جدوجہد میں کیا فائدہ یا نقصان ہو گا۔ بہرحال سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالے سے ایک بحث کا آغاز ضرور ہوا ہے۔احتجاج سے قطع نطر ان پاکستانی این جی اوز خواتین کو عام پاکستانی عورت کے مسائل کا کچھ معلوم نہیں ہے کہ یہ خواتین کس کٹھن وقت سے گزر رہی ہیں، ان مسائل شدہ خواتین کے لیے کوئی نوکریاں مہیا کی جائیں ، ان کے گھریلو مسائل کیلئے منصوبہ بندی کی جائے ، ان کی دنیا وی اور دینی تعلیم کے لیے کام کیا جائے اور پھر کئی پوسٹر” میرا جسم میری مرضی“ کے دیکھے ، کیا ان پوسٹر ز سے عورت کی عزت و احترام میں اضافہ ہو سکتا ہے ، ہمارے نبی ﷺ نے اسی طرح خواتین کے احترام کا درس دیا تھا ، دراصل ہمارا معاشرہ تو عورت کے احترام کو سب سے زیادہ عزت دیتا ہے جب وہ بیٹی کی صورت میں پیدا ہوئی تھی پھر وہ بیوی بنی اور پھر وہ ہی عورت ماں بنتی ہے تو عورت کا احترام انتہائی عروج تک پہنچ جاتا ہے دراصل ہم اپنا کلچر ، اپنا مذہب ، اپنی روایت کو پیچھے چھوڑے دوسرے مذاہب پر نظر ڈالیں کہ آیا ہم کل صیح تھے یاآج کی دوڑ میں شامل یہ ممی ڈیڈی ،برگر فیملی کے لوگ صیح ہیں کیونکہ اگر ہم ان خواتین کے نام پر مارچ میں جائیں تو کئی لڑکے ایسی حالت میں نظر آئیں گے کہ ہمیں ان کو پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ انہیں خواتین کہا جائے یا نوجوان مرد ، فیصلہ قارئین پر ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here