ماجد جرال
حالیہ سینیٹ انتخابات کے بعد پاکستان میں یہ بحث بہت زور پکڑ گئی ہے کہ اپوزیشن دوبارہ سے اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونا شروع ہوگئی ہے اور حکومت کے لیے مسائل بننا شروع ہو گئے ہیں۔ میں اپنے صحافتی تجربے کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ یہ دونوں اندازے ہی غلط ہیں۔ اپوزیشن مضبوط اور نہ حکومت کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان کے اصل مالکوں نے اپنی طاقت کا اظہار ایک بار پھر کیا ہے۔ کبھی وہ اپنی طاقت کا اظہار یوں بھی کرتے ہیں کہ ہم کچھ نہ کریں تو تم کامیاب ہو جاو¿ گے، اور کبھی وہ اپنی طاقت کا اعلان یوں کرتے ہیں کہ ہمارے بغیر تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ باتیں بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف ایک جھٹکا دیا گیا ہے، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک روایتی چال ہمیشہ سے ہر حکومت کے لیے رہتی ہے، حق چار یا چھ مہینے بعد حکومت کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا محاذ ضرور کھڑا کر دیا جاتا ہے، جس کے بعد منتخب جمہوری حکومت ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس طرح ان کی طاقت کا اظہار بھی ہو جاتا ہے۔میرے خیال میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر بن جانا اور وزیراعظم عمران خان کا دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر لینا سبھی ان کا کرشمہ حسن ساز ہے۔سینٹ انتخابات کا ایک اور پہلو جو پی ڈی ایم کی تحریک کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے وہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی روایت کو دوبارہ جنم دیناہے، پی ڈی ایم نے پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے اپنی کوششوں کا جو نعرہ بلند کیا، وہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے لوگوں کی جانب سے سراہا گیا ، مگر موقع ملتے ہی دوبارہ سے انہی روایات کو جنم دینے سے کیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کر رہی ، پی ٹی ایم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ عوامی طاقت اب اسی صورت موجود رہے گی جب تک وہ اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں آنے دیں گے، جس دن پی ڈی ایم کے قول و فعل میں تضاد آگیا اسی دن پاکستان کی عوام دوبارہ ان سے متنفر ہونا شروع ہو جائے گی۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک مدت کے بعد پاکستان میں کسی حد تک کامیاب تحریک کا روپ اختیار کر رہی ہے، اب تک ان کی جانب سے مختلف شہروں میں کئے جانے والے جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے نمایاں نتائج سامنے آئے، تاہم پی ٹی آئی میں موجود جماعتوں خصوصا نون لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مفادات کے ٹکراو¿ کی صورت حال کے باعث سب نے دیکھا کہ کئی دفعہ یہ کشتی ہچکولے کھاتی نظر آئی، تاہم اب بھی پی ٹی ایم کے قائم رہنے کی بنیادی وجہ جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہنا ہے۔ آپی ڈیم کے لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی وہ جیت جائیں تو ان کی فتح اور ہار جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے چال کا فارمولا مزید چلتا رہے گا تو شاید ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اب لوگ ان باتوں اور کہانیوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت لوگوں کی جانب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے ان کے قول و فعل میں تضاد ہی ہے۔سب کو معلوم ہے کہ اب شاید پاکستانی قوم ایسے افراد کو جلد قبول نہ کرے جن کے قول وفعل میں تضاد نمایاں ہوگا۔ اس کے بعد آپ جتنا مرضی اصولی سیاست اصولی سیاست کا شور مچاتے رہے لیکن لوگ آپ کی اصولی سیاست کو مفروضی سیاست سمجھ کرچھوڑ دیں گے۔
٭٭٭