دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں، امریکہ اور چین، گزشتہ چند سالوں سے تجارتی محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ اس کشمکش کی بنیاد “ٹیرف” یعنی درآمدی محصولات پر ہے۔ یہ محصولات وہ ٹیکس ہوتے ہیں جو ایک ملک دوسرے ملک سے آنے والی اشیا پر عائد کرتا ہے، تاکہ مقامی صنعت کو تحفظ دیا جا سکے یا سیاسی و معاشی دبائو ڈالا جا سکے۔یہ تجارتی جنگ 2018 میں اس وقت شروع ہوئی جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد ہونے والی مختلف مصنوعات پر اربوں ڈالر کے ٹیرف عائد کیے۔ ان کا موقف تھا کہ چین غیر منصفانہ تجارتی پالیسیز، کی چوری، اور امریکی صنعتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ جوابا، چین نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگا دیئے۔یہ سلسلہ دونوں ممالک کے درمیان کئی مراحل میں جاری رہا، اور ہر مرحلے میں ٹیرف کی فہرست میں مزید اشیا شامل ہوتی گئیں۔ ٹیرف کا یہ تبادلہ صرف تجارتی نہیں بلکہ سیاسی میدان میں بھی اثرانداز ہوا، اور دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی گئی۔امریکہ اور چین کے درمیان ٹیرف کی اس جنگ نے نہ صرف ان ممالک کی معیشتوں کو متاثر کیا بلکہ دنیا بھر کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ امریکی صارفین کو چینی مصنوعات مہنگی ملنے لگیں، جب کہ چینی برآمد کنندگان کو امریکہ کی سب سے بڑی منڈی تک رسائی میں مشکلات پیش آئیں۔عالمی مارکیٹس میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، اسٹاک مارکیٹوں میں اتار چڑھا آیا، اور دنیا کے دیگر ممالک کو بھی درمیان میں آ کر کسی نہ کسی صورت میں نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنی سپلائی چینز کو چین سے ہٹا کر دوسرے ممالک جیسے ویتنام، بھارت یا میکسیکو منتقل کرنے کی کوشش کی۔2021 میں جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد اگرچہ لفاظی میں کچھ نرمی آئی، لیکن ٹیرف کی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ امریکہ اب بھی چین پر تجارتی دبا برقرار رکھے ہوئے ہے، اور چین بھی جوابی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔حال ہی میں دونوں ممالک نے کچھ مخصوص شعبوں میں مذاکرات کا آغاز کیا ہے، خاص طور پر ماحولیات، ٹیکنالوجی، اور سیکیورٹی کے میدانوں میں۔ تاہم، ٹیرف کے مکمل خاتمے کے کوئی فوری آثار نظر نہیں آتے۔امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ نے یہ واضح کیا کہ کس طرح دو بڑی طاقتوں کی پالیسیز پوری دنیا پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ جنگ صرف اقتصادی نہیں بلکہ تکنالوجی، جغرافیائی سیاست اور عالمی اثرورسوخ کی جنگ بن چکی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف کی موجودگی دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ عالمی تجارت اب صرف منافع یا درآمد و برآمد تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ بڑی طاقتوں کی پالیسیوں، تحفظات اور عزائم سے جڑی ہوئی ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان ٹیرف کی یہ جنگ بظاہر وقتی طور پر معیشت کو سہارا دینے یا حریف پر دبا ڈالنے کا ذریعہ ہو سکتی ہے، مگر طویل مدت میں یہ عالمی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ دنیا کو ایسے حل کی ضرورت ہے جو متوازن، منصفانہ اور باہمی احترام پر مبنی ہو تاکہ مستقبل میں تجارتی تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکے۔
٭٭٭