جشن آزادی، پریڈ اور میلے!!!

0
182

معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ انقلابی شاعر احمد فراز اپنی زندگی میں دنیا بھر کی طرح امریکہ بھی باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ اردو ٹائمز کے پبلشر برادرم خلیل الر حمن ہمیشہ سے اردو ادب اور شاعری کی سرپرستی اور اہتمام کیا کرتے تھے ،کورونا نے جہاں دیگر شعبوں کو تہس نہس کردیا ہے وہیں سماجی تقریبات بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں ۔احمد فراز بیرون ملک پاکستانیوں کے بارے میں اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان بیرون ملک پاکستانیوں کے دل میں بستا ہے میں انکے دل کی گہرائیوں سے نکلا یہ جملہ اکثر استعمال کرتا ہوں کیونکہ واقعی جو دکھ اور درد ان پردیسیوں کے سینے میں ہے وہ مجھے بھی محسوس ہوتا ہے اور اس کی عکاسی قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے ۔سیلاب، زلزلے، قرض اتارو مہم ،کشمیر کی تحریک ہو، اسرائیلی یا بھارتی جارحیت ،ہر موقع پر دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی اپنی مٹی کا قرض کبھی نہیں بھولتے۔ اگست کا مہینہ چونکہ آزادی کا مہینہ ہے موجودہ حالات میں ہمیں آزادی کی قدرونعمت کا پوری طرح احساس ہوتا ہے اور رب کریم کے حضور سجدہ بجا لاتے ہیں کہ ہمیں کتنی بڑی نعمت سے سرفراز فرمایا۔کورونا کی وباءکی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر اس سال امریکہ میں پریڈ میلے منعقد نہیں ہورہے تاہم محدود پیمانے پر اجتماعات منعقد کئے گئے اور اس میں نئی پروان چڑھنے والی نسل نے بھرپور شرکت کی 1980 کی دھائی میں جب مرحوم فیض رسول بابر نے نیویارک کی سالانہ پریڈ کی داغ بیل ڈالی ،اس دوران بڑے اختلافات اور دھڑے بندیاں بھی ساتھ ہی ابھر کر سامنے آئیں انکا ایک ہفتہ وار اردو پروگرام بھی ہوا کرتا تھا جسکا شدت سے انتظار رہتا تھا ۔ڈاکٹر شفیع بیزار ان دنوں اور کچھ عرصہ قبل تک بڑے متحرک اور فعال تھے اب کافی بیمار رہنے لگے ہیں ،انکی صحت کے لئے دعاگو ہیں، انہوں نے بھی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی تنظیم پاکستان لیگ آف امریکہ کی داغ بیل ڈالی ،ساتھ ہی گڈ مارننگ ایشیاء نامی ٹی وی شو کا بھی آغاز کیا جو آدھی رات کے قریب ہوتا تھا۔ فیض رسول بابر اور ڈاکٹر بیزار کے دو مختلف کیمپ بن گئے ،اس وقت کے قونصل جنرل رضی (مرحوم) بھی دونوں کی زد میں آگئے، میں ان دنوں نیا نیا آیا تھا ایک دن رضی صاحب نے کال کی اور اس صورت حال پر بڑے دکھ کا اظہار کیا۔ مسئلہ وہی فنڈنگ کا تھا ،بڑے بڑے پاکستانی اداروں کا ان دنوں نیویارک میں کافی کاروبار تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے فیض رسول بابر کی دل کھول کر قومی خزانے سے دھن برسایا اور اسکے بعد قونصلیٹ نے بھی اسی روش کو اپنایا اسی کشمکش اور منظور نظر کی دوڑ میں دھڑے بندیوں کا آغاز ہوا، پریڈ کے مقابلے میں میلوں کی رسم کا آغاز ہوا باوجود دھڑے بندیوں کے نام پاکستان کا ہی روشن ہوتا تھا ،عدالتوں میں بھی یہ اختلافات آئے مگر سلسلہ چلتا رہا ،لوگوں میں خوشحالی آنے کے ساتھ کمیونٹی نیویارک سے پوش علاقوں کی جانب منتقل ہونا شروع ہوگئی مرکزی پریڈ کی جگہ علاقائی اجتماعات نے جنم لیا،نیز اختلافات کی شدت جس سے نیویارک کی پریڈ اب نزع کی حالت میں چلی گئی ہے۔
پاکستان لیگ کی کوکھ سے پاکستان لیگ آف یو ایس نے جنم لیا ،مرحوم ڈاکٹر رفیق جان کا کردار بڑا اہم تھا مرتے دم تک فعال تھے ،اب دونوں لیگیں زمانے کی گردش کے پیش نظر مرحوم ہو چکی ہیں ،ہم سب ان بڑے پاکستانی امریکنز کو بھول چکے ہیں جو نام میرے ذہن میں ہیں انہیں جشن آزادی کے موقع کی مناسبت سے خراج تحسین کرنا ضروری سمجھتا ہوں، میری خواہش ہے کہ کمیونٹی میموریل ڈے کی طرز ہر مشکل حالات میں امریکہ میں پاکستان کا پرچم بلند کرنے والوں کویاد رکھے۔
فیض رسول بابر، ڈاکٹر شہیدی ،ڈاکٹر پوشنی ،ڈاکٹر رفیق جان، اصغر چوہدری، صادق چوہدری، واحد بخش بھٹی ،حافظ صابر ،طاہر خان، منیر لودھی ،انور کمال، چوہدری غلام حسین آف بونٹن ،انعام عباسی، تنویر شاہ عبدالستار اوزا، حاجی جمیل ،سردار نصراللہ ،عالم خان، عنایت شیخ، عبدالحمید بٹ اور درجنوں ایسے رہنما ، گمنام کارکن جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا اور کررہے ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں باری تعالی انکی مغفرت فرمائے اور جو لوگ اس وقت بھی خاموشی سے اپنے فرائض بغیر نام و نمود کے جاری رکھے ہیں اللہ تبارک انکی کاوشیں قبول فرمائے ،باقی کوئی نام نادانستہ ذہن سے محو ہوگئے ہوں تو معذرت ،باقی باتیں پھر کسی نشت میں !
پاکستان پائندہ باد
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here