ہر قوم پکارے گی! ہمارے ہیں حسین علیہ السلام!!!

0
268
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

 

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ہر سال نیا شروع ہوتا ہے بہت سی باتوں کی تجدید ہوتی ہے لیکن داستان شہادت امام حسینؑ گویا ہر سال از سر نو شروع ہوتی ہے اس داستان جان نثاری کی تاثیر قلوب وافکار پر اس طرح واقع ہوتی ہے کہ احساسات قلبی وادراکات ذہنی سب نئے سرے سے اس عجیب وغریب واقع میں مصروف وعالم حیرت میں گم ہوجاتے ہیں یہی وجوہات ہیں جن کے تحت اسلام کے مقدس بانی رسولِ خدا امام حسینؑ کو اپنی جان فرماتے تھے اور اپنے آپ کو امام حسینؑ سے قرار دیتے تھے اس لئے رسولِ خدا آزاد لوگوں کی شمع کو ہمیشہ زندہ وتابندہ دیکھتے تھے یعنی ہر زمانہ میں ملت اسلامیہ صبح وشام نماز وسجدہ کے بعد مرکز دل کربلا کے ذریعہ قبرومزار سید الشہدا کو سلام کرتے رہیں گے اور ان کے کوچہ¿ محبت کی عظمت وبزرگی کو یاد رکھیں گے۔یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے شریعت اسلام میں ایک بلند مرتبہ اور تاریخ اسلام میں کربلا کو ایک بلند درجہ کا حامل قرار دیا سید الشہداءکا مزار اقدس اسلام میں حیل وحجت کے بغیر حیات انسانی کیلئے مو¿ثر شمار کیا گیا خونِ امام حسین کو خونِ رسول تسلیم کیا گیا ہے اسی لئے کربلائے امام حسینؑ کے مقام ومنزلت کو مدینہ رسول اور مکہ کے مقام پر برتری حاصل ہوئی کیونکہ ظاہری طور پر کربلا مرکز علم وعظمت دین کا دائمی مقام ہے اور لوگوں کیلئے حقیقی راستہ تعجب تو یہ ہے کہ ان معانی میں سے کسی پر بھی غور کیا جائے تووہ کربلا کے ساتھ پیوستہ ظہور اس طرح پائے جائیں گے کہ ان کی تازگی روزانہ بڑھتی ہوئی نظر آئے گی، ماضی وحال ومستقبل بالکل یکساں بلکہ مستقبل زیادہ تابندہ معلوم ہوگا اس کی مثال کربلا میں پیش کی گئی جہاں عون و محمدو عبداللہ و اصغر جیسے بچوں اور زھرقین حبیب و مسلم و بجلی جیسے بوڑھوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اولاد ابی طالب ، اولاد اصحاب رسول و تابعین کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔بہتے دریا کے کنارے اہل بیت رسول کو محروم آب کیا گیا۔ہر سال محرم اپنے دامن میں اظہار حق گوئی ، انکار بیعت باطل اطاعت حق ،غیرت و حمیت اور ایثار وفا کا پیغام لے کر آتا ہے۔محرم سے چند روز قبل ہی عاشورہ منانے کی تیاریاں زور پکڑ لیتی ہیں امام بارگاہوں ،مساجد مراکز مدارس و مکاتب ،حسینیہ جات و تکیہ جات کو کالے کپڑوں اور علم غازی سے سجا دیا جاتا ہے۔نذر و نیاز یعنی تبرک کا و افر بندوبست ہوتا ہے۔دنیا بھر میں پانی ،شربت ،چائے ،کافی،دودھ کی سبیلیں دس روز مسلسل لگی رہتی ہیں،لنگر حسین تقسیم ہوتا رہتا ہے۔مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے فاطمہ کے لال کا غم مناتے ہیں۔ریڈیو ،ٹی وی، اور اخبارات سے خصوصی پروگرام و نشریات کا انتظام ہوتا ہے۔میں بچپن میں جب بس ،ویگن میں سفر کرتا تو ڈرائیور جب کیسٹ لگاتا جس میں مجلس حسین ہوتی تو اسی سے پتہ چل جاتا تھا کہ محرم کا چاند نظر آ گیا ہے ،ایران میں اپنے زمانہ طالب علمی کے قیام میں میں نے محسوس کیا تھا کہ ہر گلی کوچہ سے یا حسین کی آواز آ رہی ہوتی تھی۔کربلائے معّلیٰ میں کم و بیش 60لاکھ افراد روز عاشورہ عزاءمیں شریک ہوتے ہیں۔حیدرآباد دکن میں کہتے ہیں 24 گھنٹے میں کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جہاںکہیں نہ کہیں ذکرِ حسینؑ کی مجلس نہ ہو رہی ہو۔جب میر عثمان علی خان آصف جاھی کی حکومت و اقتدار کا چراغ گل ہونے لگا تو انہوں نے اپنی ساری مالیت وقف حسینؑ کر دی تھی۔(جاری ہے)
اسی لئے آج تک عزاداری قائم ہے یہی حال لکھنو کے بادشاہوں کا ہے اگرچہ انہیں دائمی حکومتیں تو نصیب نہ ہوئیں تاہم دائمی عزاداعی کے لیئے وہ بڑے بڑے امام بارگاہ قائم کر گئے۔لاہور میں قرلباشوں نے عزاداری کے وہ مراکز قائم کیے ہیں کہ پنجاب بھر سے مجمع کھچ کھچ کر یہاں آتا ہے کراچی میں حاجی حبیب صاحب حبیب بنک والے ،راجہ صاحب آف محمود آباد اور دیگر نوابیں نے عزاداری کے بڑے چراغ روشن کئے۔نشتر پارک میں مجلس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوتے ہیں کراچی میں مقیم ایرانیوں ، خوجوں اور مہاجرین نے گلی گلی میں عاشورہ خانے قائم کر دیئے۔کوئٹہ میں ھزارہ قبیلے نے فروغ عزاءکے لیئے کلیدی کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ سابق صدر جنرل محمد یحییٰ خان او ر سابق جنرل موسیٰ عاشورہ کے دن ذوالجناح کی باگ پکڑتے تھے۔ننگے پاﺅں سر ماتم کرتے ہوئے شام غریباں کی مجلس میں شرکت کرتے تھے۔پشاور ،پارا چنار، کوہاٹ میں پٹھانوں نے فاطمہ کے لال کی صف ماتم بچھانے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔
گلگت و بلتستان میں بہت بڑے لیول پر عزاداری ہوتی ہے۔پوٹھوار میں مجالس عزاءکے اتنے بڑے اجتمات ہوتے ہیں کہ ایران یاد آ جاتا ہے۔سرائیکی علاقوں کے اکثر و بیشتر نوابین اور خیر پور سمیت سندھ بھر کے وڈیرے عزادار رہے ہیں۔کویت میں حسینیہ جات اتنے زیادہ ہیں کہ اسے امام بارگاہوں کا شہرپکار جاتا ہے۔دوبئی ، ابوظہبی،قطر، مسقط، سعودی عرب، شام، بحرین، شارجہ، افغانستان ، بنگلہ دیش، افریقہ، یورپ ، ساﺅتھ امریکہ، گلف ، نارتھ امریکہ، کینڈا، عراق یا کونسا ایسا ملک ہے جہاں صف ماتم حسینؑ نہیں بچھتی یکم محرم بلکہ چاند رات سے مجالس عزاءشروع ہو جاتی ہیں۔
ذاکرین ، خطباء علماءترتیب سے فضائل کے ساتھ ساتھ مصائب آلِ محمد بیان کرتے ہیں۔نماز جماعت ، حج و عمرہ و زیارات کی طرح فرش عزاءپر بیٹھنے کو شاہ و گدا اپنے لیئے سعادت سمجھتے ہیں۔ یہ واحد انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں امیر و غریب کے امتیازات مٹ جاتے ہیں۔چاند رات کو علماءو ذاکرین سفیر امام حسینؑ اور محرکات واقعہ کربلا بیان کرتے ہیں۔انکار بیعت کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ یکم محرم کو راستے حالات و رددِ مکہ،احرام حج کا احترام عمرہ میں بدلنے کا فلسفہ دو محرم کو ورودِ کربلا اہمیت خاک شفاءتین محرم کو سفیر امام حسینؑ حضرت مسلمین عقیل کے حالات و شہادت نیز فرزندانِ مسلم کا اجمالی ذکر ، چار ّمحرم کو حبیب و حر و سعید کے واقعات شہادت ، 5 محرم کو عون و محمد کی شہادت، 6 محرم کو شہادت علی اکبر، 7 محرم کو شہادت قاسم،8 محرم کوشہادت حضرت عباس ،9 محرم کو شہادت علی اصغر اورواقعات شب عاشورہ ،۔عاشورہ کے دن سرکارِ سیدالشہداءسمیت شہادت شہدائے کربلا۔شام غریباں کو رات کے مصائب ،12 محرم کو تدفین کے حالات بیان ہوتے ہیں۔
امت مسلمہ کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ ھدف سفرِ حسینؑ کو سمجھنے کی کوشش کریں جس مقدس مشن کی خاطر بنی ہاشم نے وطن چھوڑا اسے زندگی کا نصب العین قرار دیں۔کربلا کے پیغام کو عام کریں۔کربلا معرکہ حق و باطل ہے۔کربلا اصولوں کی جنگ ہے۔ کربلا میں ظلم ہار گیا مگر شکست تسلیم نہ کی۔کربلا اسلحوں کی بہتات کے ساتھ ایمان و تقوی کی طاقت کا ٹکراﺅ ہے۔کربلا نے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق سکھایا۔کربلا نے مطالبہ بیعت کرنے والوں کی کلائی مروڑی۔کربلا میں حقیقت جیت گئی بناوٹ ہار گئی۔عبادت کو فتح ہوئی شرارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔تسبیح و تقدس والوں کا سر بلند ہوا رقص و سرور والے سرنگوں ہو گئے۔ شریعت کے محافظ سر خرو ہو گئے۔شریعت کے مخالف سیاہ رو ہوئے اذانوں والے فاتح قرار پائے۔جبکہ گانوں والے شکست خوردہ ہو گئے۔شب زندہ دار حیات ابدی پا گئے جبکہ شب بیزار قصہ پارینہ بن گئے۔آج بھی کربلا کے رہگزاروں سے علی اکبر کی صدائے اذان بلند ہے۔آج بھی حسینؑ ابن علی کی آواز تکبیر غاضریہ میں گونج رہی ہے۔
فرات آج بھی سقائے سکینہ کی قبر کا طواف کر کے ندامت کا اظہار کر رہا ہے۔یزید کا شام میں کوئی نام لیوا نہیں جبکہ کربلا والوں کے عشق سے بچہ بچہ سر شار ہے۔جعلی خلافتوں کے چہرے پر پڑی منافقت کی گرد آلود نقابیں کربلا نے کھنچ دیں مقتولین بدر کا بدلہ لینے والوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملی۔ امام حسینؑ اور ان کے ساتھی ہمیشہ کے لیئے زندہ جاوید ہو گئے۔جب کہ یزیدی قوتیں نیست و نابود ہو گئیں۔محرم الحرام میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری اپنے اوپر اسلام کو نافذ کر کے دوسروں کو تلقین کرنا ہے۔کربلا والوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ حلال محمد کو کبھی حرام نہ ہونے دیا جائے اور حرام محمد کو کبھی حلال نہ ہونے دیا جائے۔جھوٹی ، جعلی، بناوٹی خلافتوں کے جالوں میں پھنسی قوم کو نکال باہر کیا جائے۔
علماءدین کی مخالفت سے دوری اختیار کی جائے اس لیئے کہ توہین علماءفکرِ یزید ہے۔اسلامی اصولوں میں تبدیلی نہ کرنے دی جائے۔کسی بھی فاسق و فاجر کو منبر رسول پر نہ بیٹھنے دیا جائے۔جھوٹی بیعتوں کے سلسلوں کو بند کیا جائے بڑی بڑی مصیبت میں اوّل وقت میں نماز کو فراموش نہ کیا جائے اس لیئے کہ کربلا والوں نے برستے تیروں نیزوں اور برستی تلواروں مے سائے میں اوّل وقت میں نماز جماعت ادا کر کے سنہری دستاویز رقم کر دی۔اطاعت اولی الامر ملحوظ خاطرر ہے۔
مجھول الشّجرہ کی کبھی پیروی نہ کی جائے دنیا کی ہر انقلابی تحریک کو کربلا نے دوام بخشا ہے۔محرم الحرام میں انصار حسینی کی وفا کا ذکر خصوصیات سے کرنا چاہیے جو شب عاشورہ میں اپنی سفید داڑھیوں پر خصاب لگا رہے تھے اس لیے کہ خوش تھے کہ ان کے اور جنت کے درمیان صرف ایک شب کا فاصلہ رہ گیا ہے۔جب کوئی صحابی حسینؑ شہید ہونے لگتا تو دوسرے کو وصیت کرتا کہ غریب زھرآ کا خیال رکھنا۔جب کو ئی غلام اپنے آقا کو نصرت حسینؑ میں سست پاتا تو خود راہی میدان ہو جاتا نوبیاھے دولھا وھب کلبی نے انتہا کر دی اسلام قبول کر کے شہید راہ خدا ہوئے اور ان کی ماں اور اہلیہ بھی نثار حسینؑ ہو گئیں۔حر کی توبہ کا درس ہم سب کو توبہ کی کشتی پر سوار کراتاہے۔
حر نے کس طرح یزیدی فوج کی جرنیلی چھوڑ کر فاطمةالزاھراءکا رومال حاصل کیا۔شب عاشورہ جب امام حسین نے چراغ گل کر کے قلادئہ بیعت اٹھایا تو کوئی جانے ولانہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ امام حسین فرمایا کرتے تھے جیسے اصحاب مجھے ملے ہیں ایسے نہ میرے ناناکو ملے تھے نہ ہی میرے بابا اور بھائی حسن کو۔تبھی تو امام باقر کے بعد ہر امام نے زیارت میں یہ پڑھا کہ اے انصار حسینؑ مرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں محرم الحرام آتے ہی ایک ولولئہ ایثار جوش ایمانی حرارت دین پیدا ہوتی ہے۔ہندوستان کی سر زمین ہر ہندو بھی ماتم حسینؑ کرتے ہیں۔ساﺅتھ امریکہ میں عیسائی ماتم حسینؑ کرتے ہیں۔
میں نے جب کبھی کسی یہودی ، عیسائی ،ہندو ،سکھ داھرے یا کسی بھی غیر مسلم سے علی اصغر کی پیاس کا ذکر کیا ہے تو وہ روئے بغیر نہیں رہ سکا میرے شاگرد مسلمان محمدی (سابقہ پادری جیمز راس) نے المھدی سنٹر کی مجلس عزاءاور سید حسینؑ الزھراءوالے کے گھر جوش سے ماتم شروع کر دیا جب انھیں احساس ہوا کہ کربلا میں اہل بیت کے ساتھ کیا ہوا محرم الحرام میں خطباءذاکرین نوحہ خوان حضرت اور علماءدین مشن حسینؑ کا تذکرہ ضرور کریں۔امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ،اصلاح امت، خیر سے محبت شر سے نفرت اعلائے کلمتہ الحق تلاوت قرآن نماز کی پابندی، حقوق اللہ ،حقوق الناس کا خیال ، تبلیغ دین، حجاب کی پابندی ، تربت قوم وغیرہ کا ذکر منبروں سے ضرور ہو تا کہ روح کربلا زندہ رہے کردار سازی کے لیئے محرم الحرام سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے۔
محرم الحرام میں یزید کے مظالم کا تفصیل سے ذکر کیا جائے ہزید کے جرائم پر پردہ ڈالنا قطعاً جائز نہیں ہے۔بلکہ اسلام سے غداری ہے۔امام باقر نے اپنے فرزند امام جعفر صادق کو وصیت کی تھی کہ میرے باغ کی آمدنی سے میری شہادت کے دس سال بعد تک منیٰ میں عزائے حسینؑ کا اہتمام کیجئے گا تاکہ لوگوں کو ظالم و مظلوم کا صحیح تعارف ہو۔مجالس عزاءکا اصل ہدف ہی یہی ہے ظالم کے مظالم اور مظلوم کی مظلومیت کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔امام حسینؑ نے مدینہ سے کربلا تک اپنے مقدس سفر کے دوران جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں انکا خصوصی ذکر مجالس میں ہوتا کہ لوگوں کو کربلا کی مقصدیت و افادیت کا خیال رہے۔
میں سمجھتا ہوں صرف خطبات امام حسینؑ ایک پی ایچ ڈی کا عنوان و مواد ہیں محرم الحرام میں خاندان عصمت و طہارت کے افراد کے استقلال اور جذبہ کا برملا اظہار ہو تا ہے کہ لوگوں کو کردار سازی میں مدد ملے۔ جیسے عباس کی رگوں میں خاندان بنی ہاشم کی شجاعت اور خاندان بنی کلابیہ کی وفا کا لہو ہو اور حکم امام حسینؑ پر ہمیشہ کے لیئے اپنے جذبات پر پہرہ بٹھا دیں۔جب 18 سالہ کڑیل جوان علی اکبر سے بوڑھا باپ خلیلِ کربلا بن کر جہاد کی رائے پوچھے تو اکبر آواز دیں بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اگر حق پر ہیں تو موت سے نہیں ڈریں گے۔
جب 13 سالہ بھتیجے قاسم سے سرکار سید الشہداءموت کے بارے سوال کریں تو شہزادہ مسکرا کر فرمائے موت شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔عون و محمد جہاد کے لیئے جانے میں سبقت کریں اصحاب حسینؑ بھی ایک دوسرے پر سبقت کرتے رہے۔محرم الحرام میں شہدائے کربلا کی عظمتوں کو سلام کیا جاتا ہے۔اسیرانِ کوفہ و شام کو سلام عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔محرام الحرام کے دوران نسل جوان کی زبان و لہجہ کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے بعض اداروںمیں نوجوانوں کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔یہ درست اقدام نہیں ہے محرم کے دوران خطباءکو اشتعال انگیز تقریروں سے اجتناب کرنا چاہیئے بہت سارے لوگ محرم آتے ہی فتوی بازی شروع کر دیتے ہیں۔انہیں ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیئے۔مجلس و ماتم سینہ زنی وغیرہ کا فلسفہ یہی ہے کربلا میں ہوتے تو شہدائے کربلا پر خود کو قربان کر دیتے۔
میری قارئین سے درخواست ہے کہ بلڈ دینے کی اپیلوں میں لوگ شرکت کریں تاکہ شہدائے کربلا کے نام پر خون کے عطیات دیکر یہ ثبوت فراہم کیا جائے کہ اگر ہم کربلا میں ہوتے تو اپنے خون کو شامل خونِ بنی ہاشم کر دیتے دوران محرام الحرام شیعہ سنی مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ کثرت سے روزانہ مجالس عزاءمیں شرکت کریں دل کھول کر نذر و نیاز و سبیل کا بندوبست کریں مراکز و امام بارگاہوں کے منتظمین مجالس کے پروگروموں کو وقت پر رکھیں۔پابندی وقت ملحوظ خاطر رہے محرم الحرام کے دوران ٹی وی اخبار یا کسی فورم سے اگر شہدائے کربلا کے خلاف کوئی بات ہو تو سب احتجاج کریں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے طفیل میں ہر مسلمان کو کربلا والوں سے درس حقیقت ودیانت سیکھنے کی توفیق دے اللہ اس محرم کو امت مسلمہ کو دہشت گردوں سے محفوظ کرنے کا ذریعہ بنائے آمین۔
اس سال جوارِ کعبہ میں بھی دوران حج اپنی آنکھوں سے ماتم حسین دیکھا ہے اور محرم کے دوران ایسے لگتا ہے کہ کرہ ¿ ارض کا ہر چپہ لبیک یا حسین کہہ رہا ہے۔اس سے اندازہ ہو رہا ہےحسینیت ہر طرف چھا گئی ہے اور یزیدیت کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔
شاعر انقلاب جو ش ملیحہ آبادی نے سچ کہا تھا
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here