گزشتہ سے پیوستہ!!!
جس جہاز پر آپ پیرس سے تہران روانہ ہوتے ہیں اس میں اپنی عباء بچھا کر نمازوں کو کھڑے ہو کر شرائط کیساتھ ادا فرماتے ہیں۔ جب آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ تہران کے ایئرپورٹ پر آپ کے جہاز کو توپوں سے اڑایا جا سکتا ہے تو فرماتے ہیں جب ہدف نیک ہو تو قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کی وجاہت اور رعب کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص آپ سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر سکتا۔ جب پارلیمنٹ کے 72 ارکان بشمول اسپیکر آیت اللہ بہشتی شہید کر دیئے جاتے ہیں اور صدر اور وزیراعظم بم سے اُڑا دیئے جاتے ہیں تو دونوں موقع پر فرماتے ہیں دوست چلے گئے ہیں مگر خدا ہے۔ آپ معمولات حیات میں بہت ہی سادہ پائے گئے ہیں۔ سادہ غذا کھاتے، سادہ لباس پہنتے، مرتے دم تک کرایہ کے مکان میں رہے۔ وفات کے وقت ان کے اکائونٹ میں 1200 تومان تھے۔ اقتدار میں اپنے فرزند یا پوتوں، نواسوں کو شامل نہیں فرماتے۔ زندگی کے آخری دنوںمیں بھی جب کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی تو سہارا لے کر کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اس کڑی حالت میں بھی مستحبات کو بھی ترک نہیں فرمایا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے اثاثوں میں سوائے جدی پشتی مکان کے کچھ نہیں ملتا۔ میں نے بیسیوں بار آپ کی زیارت کی۔ رعب اور دبدبہ کے باوجود انتہائی خوش اخلاق پایا۔ آپ خود سے چھوٹے لوگوں کو بھی تویا تم کی بجائے آپ کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی بجائے ان کو انعام و اکرام سے نوازتے۔ آپ نے پچھلی صدی کے عظیم رہبر و رہنما ہونے کے باوجود طالبعلمانہ سادگی کو ترک نہ کیا۔ آپ بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ آپ سخت غصہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی کو ترک نہیں فرماتے۔ آپ سیاسی مصروفیات کے باوجود مذہبی فرائض اور نوافل کو کبھی ترک نہ کرتے۔ آپ نے عمر بھر تلاوت قرآن، قیام الیل اور خدمت خلق کو کبھی ترک نہ کیا۔ جب آپ کے بیٹے علامہ احمد خمینی نے آپ کی تدفین کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے جب تک میں زندہ تھا اپنے بدن کا خیال رکھنا میری ذمہ داری تھی۔ جب روح نکل جائیگی تو اب تمہاری ذمہ داری ہوگی۔ اپنی صوابدید کے مطابق پوری کرنا۔
٭٭٭